سزاکے بعد سیاست

ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد ہونے کے بعد شریف خاندان کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا گیا نواز شریف کو 10سال قید 8ملین پاﺅنڈ جرمانہ لندن فلیٹس کو ضبط کرنے کا حکم، مریم نواز کو 7سال قید اور 2ملین پاﺅنڈ کی سزا کیپٹن(ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے سبھی نااہل بھی ٹھہرے ہیں ۔فیصلے سے ایک دن قبل انکے معتمد خاص فواد حسن فواد کی گرفتاری نے ن لیگی حلقوں میں ایک پیغام عام کر دیا کہ باد مخالف کا مقابلہ انکے بس کی بات نہیں کارکنوں کا حوصلہ پست ہونا فطری بات ہے ۔ انتخابات میں ہار جیت محض منشور کی بنیاد پر نہیں ہوتی‘ لوگ جانتے ہیں کہ منشور محض ایک پمفلٹ کا نام ہے جسے لوگ کم ہی پڑھتے ہیں اتنے ڈھیر سارے الزامات والے شخص کو طاقتور ترین بیوروکریٹ کی حیثیت حاصل رہی یہی حال احد چیمہ کا تھا بڑے لوگوں کو پتہ نہیں کہ انکی منٹ منٹ کی مصروفیت اور ہر ہر حرکت مانیٹر ہوتی ہے انکے ساتھ چائے پینے والے ہی انکے مخبر ہوتے ہیں افسوس تھا کہ قومی رہنما کے ان گنت ساتھیوں میں سے صرف چار عدالت میں موجود تھے کارکن کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ کیس کی سماعتوں کے وقت عدالت کے باہر گہما گہمی ہوتی تھی گاڑیوں کے قافلے دکھائی دیتے تھے مریم نواز کی گاڑی پر پھول نچھاور ہوتے تھے آصف کرمانی ،ڈاکٹر فضل چوہدری ، بیرسٹر ظفر اللہ اور انجم عقیل نے اپنی جانثاری ثابت کی۔ شریف خاندان کے خلاف دائرتین ریفرنسوں میں سے ابھی ایک کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ ابھی دو کا فیصلہ باقی ہے ۔ جس طرح نالائق اور غیر فعال بچے کو سکول سے گھر واپس لانا پڑتا ہے اسی طرح پنجاب کی نگران حکومت نے غیر فعال سرکاری کمپنیاں بند کرنے اور نیب سے تعاون کا پہلا بڑا فیصلہ کیا ہے سب کچھ صداقت اور امانت پر مبنی ہوتا تو ”ملزمان“ نیب کے در پر حاضری کیوں دے رہے ہوتے۔
اسحاق ڈار بھی گرفت سے کب تک بچے رہیں گے۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات پر ہی کوئی نیب کے عقوبت خانے میں ڈالا جاتا ہے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ووٹ کو زبان لگ گئی ہے پارلیمنٹ میں تو کبھی کبھار اپوزیشن سوال اٹھاتی ہے لیکن اب توہر حلقے میں لوگ امیدواروں پر سوالوں کے تابڑ توڑ حملے کرکے انہیں لاجواب یا بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ فرعونیت سے منت سماجت پر اتر آنا تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے؟ پانی سر سے گزر چکا تو بعض لیگی رہنماﺅں کو نئے عمرانی معاہدے کی سوجھی ہے انہیں 30سال بعد پتہ چلا کہ کوئی پارٹی اکیلے کچھ نہیں کر سکتی انکے نزدیک سیاستدانوں کی جرنیلوں سے دوستانہ بات چیت ہونی چاہیے لیکن کون سے سیاست دانوں سے اور کون سے جرنیلوں ۔ حاضر سروس یا ریٹائرڈ جرنیلوں سے۔ حاضر سروس جرنیلوں سے ملنے کےلئے پیشگی اجازت کے بغیر جی ایچ کیو یا کور کمانڈر ہاﺅس جانا ممکن نہیں دوسری بات یہ کہ کسی بھی جرنیل کو سیاستدان سے ملنے کی کیا ضرورت ہے آرمی چیف کا صرف صدر مملکت اور وزیراعظم سے ورکنگ ریلشن شپ ہوتا ہے یارانہ یا دوستانہ نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو جنرل ضیاءالحق بھٹو کے لئے دنیا بھر سے آئے معافی نامے مسترد نہ کرتے اور جنرل پرویز مشرف نواز شریف کو جدہ کے سرور پیلس میں مکین نہ بناتے اور تیسرے دور حکومت میں نواز شریف پیشیاں نہ بھگت رہے ہوتے۔ جرنیلوں کے ساتھ معیشت اور خارجہ پالیسی پر مشاورت کی بات ہوئی ہے بھارت افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے جرنیل ہی ڈیل کر رہے ہیں ساری دنیا کو پتہ ہے کہ پاکستان میں کون کتنا بااختیار اور فیصلہ کن پوزیشن کا حامل ہے۔ یہ دن بھی آنا تھا کہ زر مبادلہ کے ذخائر کے بارے میں خبریں چھپنی تھیں کہ اتنے دن کی در آمدات کیلئے ذخائر باقی ہیں اسی طرح اب پانی کے بارے میں خبر آتی ہے کہ اسلام آباد کےلئے 10دن کا ذخیرہ رہ گیا ہے ۔
شکر ہے 70سال میں پہلی بار 2ڈیموں کی فوری تعمیر پر اتفاق ہوا ہے چیف جسٹس نے اعلان کیا ہے قرضوں کی رقم وصول کرکے بنائینگے خورشید شاہ نے ٹانگ اڑاتے ہوئے کہہ دیا چیف جسٹس کو دوسروں کے پیسوں سے کالا باغ ڈیم بنانے کا حق نہیں ۔ موبائل کارڈوں پر 15روز کیلئے ٹیکس کیا ختم ہوا حکومت نے پٹرول 7.54، ڈیزل 14، مٹی کا تیل 3.36روپے فی لٹر مہنگا کرکے بدلہ لے لیا۔ انتخابی نشانات پر زبردست سیاسی ہلچل سامنے آئی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ن لیگ کے 12امیدواروں نے آخری روز ٹکٹ واپس کر دئیے پارٹی اب متبادل بھی نہیں لا سکتی چوہدری نثار سمیت لیگی منحرفین کو جیپ الاٹ کی گئی ہے جیپ سب سے طاقتور انتخابی نشان ہے جو میدان جنگ میں بھی بے خوف ہو کر دوڑتی ہے جیپ کی الاٹمنٹ شرطیہ کامیابی کی علامت ہے۔ عمران خان کا یہ اعلان حوصلہ افز ہے کہ اقتدار ملا تو پہلے دن ہی بڑی کرپشن ختم کردوں گا انکی یہ بات صحیح ہے عوام ووٹ اسے دیں جس کا جینا مرنا پاکستان ہے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جون 2008میں خام تیل کی قیمت 145 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح پر تھی ۔جنوری 2016میں 29ڈالر بیرل کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی دسمبر 2017میں 60ڈالر فی بیرل سے لے کر رواں سال جون کے آخر تک 74ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ 2008سے موازنہ کریں تو عالمی منڈی میں تیل کی موجودہ قیمت اب بھی آدھی ہے اس وقت عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمت 173ڈالر فی بیرل ہے پاکستان صرف پانی سے 50ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر ہمارے ہاں پانی سے بجلی کی پیداوار ایک تہائی ضروریات سے اوپر نہیں گئی۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا شدہ صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کےلئے کسی جامع پروگرام کا ذکر نہیں ،نہ ہی اے ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کوئی ذکر ہے۔
1373کالعدم تنظیموں اور افراد کی موجودگی نے ہمیں گرے لسٹ میں ڈالا ہے۔ خوش آئند پیش رفت یہ ہے کہ امیدواروں کےلئے اب اثاثے چھپانا ممکن نہ ہوگا۔حلف نامے کی خلاف ورزی کی تلوار ہمیشہ ان پر لٹکتی رہے گی نئی پارلیمنٹ کے ارکان بھی کسی وقت لپیٹ میں آسکتے ہیں۔پولنگ کے دن پولیس رینجرز ایف سی اور الیکشن کا عملہ آرمی کے ماتحت کام کرنے کا پابند ہوگا۔ نگران حکومت کا ابھی تک کوئی ایسا کارنامہ سامنے نہیں آیاجو انہیں سابقہ منتخب حکومتوں سے منفرد و ممتاز ظاہر کر سکے۔ لاہور میں 38سال بعد شدید ترین بارش ریکارڈ کی گئی۔ شہر پانی میں ڈوب گیا ۔اورنج لائن ٹریک تباہ ہوا ۔ 6روز بعد ساون جھولے ڈالے گا آئندہ خبریں بارشوں اور سیلاب کی ہوں گی۔ جی پی او چوک میں طوفانی بارش سے اورنج لائن میٹروٹرین سٹیشن پر 20فٹ گہرے اور 200فٹ چوڑے گڑھے نے ترقیاتی کام میں بے ایمانی کی قلعی کھول دی۔ (جاری)

نگرانوں نے بجلی پھر 1.22روپے فی یونٹ مہنگی کر دی ہے۔ بارشوں کے موسم میں عوام ہر روز بجلی اور پانی کا بندش کا عذاب جھیلیں گے چند دن بعد جمہوریت کی قسمت کا فیصلہ بھی سامنے آ جائیگا ۔نتائج 2013سے مختلف ہونگے آئندہ باری کسی اور کو ملنے جا رہی ہے۔ 25جولائی کے بعد قومی حکومت بنے گی مخلوط حکومت سامنے آئےگی یا پھر سنگل پارٹی رول کا تجربہ کیا جائےگا۔ زرداری کی پوری کوشش بلاول کو آگے لانے کی ہے۔ وزارت عظمیٰ ہاتھ نہ آئی تو خورشید شاہ جیسا منصب ملنا بھی غنیمت ہوگا ۔ آصف زرداری کی باتیں دل کو لگتی ہیںکہ جیپ والے بڑی تعداد میں جیتے تو ڈکٹیٹ کرینگے اس سیاسی پریڈ کی قیادت چوہدری نثار علی خان کرینگے۔ انتخابات سو فیصد درست نہیں ہونگے کوئی سنجرانی وزیراعظم آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس بڑے بڑوں کی خوب خبر لے رہے ہیں میاں ثاقب نثار نے پرویز مشرف کو غاصب قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ انہیں تو کھوکھا الاٹ کرنے کی اجازت نہیںتھی پھر گاف اینڈ کنٹری کلب کی زمین کس مینڈیٹ کے تحت کیسے الاٹ کی ؟ کیا کسی کے باپ کی جاگیر ہے ملک بھر میں ریلوے کی چار ہزار 300ایکٹر سے زائد زمین پر قبضہ مافیا براجمان ہے ۔سوال ہے پرویز مشرف چیف جسٹس کی حکم عدولی کیوں کرتے ہیں ۔ مقام شکر ہے کہ چیف جسٹس نے اپنی طرف سے 10لاکھ کے عطیہ کے ساتھ بھاشا اور مہنمد ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم جاری کردیا ہے۔ سب کا اتفاق ہو تو کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے چیف جسٹس نے قدم بڑھایا ہے تو اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو بھی خیال آیا ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر نئے ڈیم بنائینگے کیا وہ ماضی میں باریاں نہیں لے چکے ؟ آئندہ منتخب حکومت کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کام کہاں سے شروع کرے۔ دسمبر 2017میں گردشی قرضہ 514ارب روپے تھا جس کی ادائیگی کیلئے عباسی حکومت نے بینکوں سے 180ارب روپے کا قرض لیا عوام سے بجلی ٹیکس کی مد میں 150ارب روپے کی وصولی شروع کر دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کیلئے سب سے زیادہ امیدوار 225پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی 218، ن لیگ 193تحریک لبیک پاکستان 150اور جیپ سواروں کی تعداد 119ہے۔
نیب اور سپریم کورٹ کے ہاتھوں احتساب کا دور اس آگ کی طرح ہے جو تیزی سے پھیلتی جائےگی اختیارات تجاوز کرنیوالوں کے گریبانوں تک ہاتھ جا رہا ہے ۔طاقتور ترین اور محبوب ترین بیوروکریٹ احد چیمہ اور اب فواد حسن فواد بھی ریمانڈ کے اذیت ناک مرحلے سے گزر رہے ہیں ایسے برے وقت کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا انٹی کرپشن کے محکمے چھوٹی موٹی رشوت کے کیسوں کو سامنے لا کر خانہ پری کرتے ہیں۔ بڑی مچھلیوں کو نیٹ میں لانے کی جرا¿ت اور اختیار نیب کے پاس ہے اس مرتبہ ملٹی چوائس الیکشن ہے ٹکٹ ہولڈرز اور آزاد امیدواروں میں سیاسی کھینچا تانی ہے سب ہی کلین سویپ کے دعوے کر رہے ہیں ۔غیر یقینی کے بادل بھی منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان کبھی بھی تنقید سے آزاد نہیں رہے اب بھی بعض دانشوروں کو اندیشہ ہے کہ وہ ایک کھائی میں گر گئے ہیں۔ انکی اپنی اہلیہ کی تقلید میں پاک تین حاضری گراں گزری ہے۔ لاہور میں ایک دن کی بارش نے گڈ گورننس کا پردہ چاک کر دیا ہے الیکشن کے متوقع نتائج بارے سروے شائع کئے جا رہے ہیں تاکہ ووٹروں پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ن لیگ اب بھی پنجاب کی سب سے مقبول جماعت ہے ،تاہم پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ووٹوں کے فرق میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی مقبول ترین جماعت ہے بلوچستان میں تین جماعتوں میں ووٹ منقسم نظر آتا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی نمبر 1پوزیشن کو تحریک انصاف کا چیلنج درپیش ہے لیاری میں پتھراﺅ کے باوجود بلاول کی انتخابی مہم زور وشورسے جاری ہے۔ تخت لاہور کیلئے ن لیگ اور پی ٹی آئی میں پنجہ آزمائی ہے۔ جیپ کا نشان بھی ووٹروں کو اپنی طرف مائل کر رہا ہے۔ بھنور میں معاشی ناﺅ کی کسی کو فکر نہیں۔ نہ ہی خارجہ پالیسی اور مسئلہ کشمیر بارے کو ئی اعلان سامنے آیا ہے متحدہ مجلس عمل کے مقابلے پر تحریک لبیک ہے اگر طاہر القادری بھی اپنے ہم مسلک تحریک لبیک کے ساتھ جڑ جاتے تو دینی جماعتوں پر مشتمل گروپ زیادہ طاقتور ہو جاتا۔ مسلک اور فقہی اختلافات کو پس پشت ڈال دیتے تو متحدہ مجلس عمل تحریک لبیک اور طاہر القادری ایک سٹیج پر ہاتھوں کی زنجیر بنائے دکھائے دیتے۔ طاہر القادری ساری زندگی نظام کو برا کہتے رہے لیکن کسی ایک سیاسی شجر کے ساتھ وابستہ بھی نہ ہوئے۔ دینی پلیٹ فارم سے اپنی ٹرین سیاسی پلیٹ فارم پر لائے تھے تو اسے کسی سٹیشن تک ضرور لے جاتے۔ امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں سب برے نظر آئیں تو کم بروں کا ساتھ دو۔ رہنا تو اسی ملک میں ہے کیا موجودہ لوگوں کی جگہ کوئی خلائی مخلوق تو نہیں نازل ہو گی۔ کلاس روم میں سارے طالب علم ایک درجے کے نہیں ہوتے مساجد میں سارے نمازیوں کے تقویٰ کا لیول بھی ایک نہیں ہوتا۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں سواری سے ہی زندگی چلتی ہے۔ چین کے احسانات بڑھتے جارہے ہیں زر مبادلہ پر دباﺅ کم کرنے کےلئے چین نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ دیا ہے چین سے لئے گئے قرضوں کی حد 5ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اس وقت ملک کے پاس تین ماہ کے درآمدی بل کی ادائیگی کیلئے بھی زر مبادلہ نہیں ہے۔ نئے منشور اور وہی پرانے نعرے ہیں سیاستدان ووٹرز کے سخت سوالات کا جواب دینے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو سمیت متعدد جماعتوں کے رہنما عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ ایم ایم اے کے انتشار کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا ۔ عمران خان نے سچ کہا کہ الیکٹ ایبلز اور روپیہ خرچ کئے بغیر انتخاب نہیں جیتا جاسکتا۔ یہ پاکستان ہے یورپ نہیں اسی لئے عمران خان نے کارکن کو نظر انداز کرکے الیکٹ ایبلز کو کثیر تعداد میں ٹکٹ دیئے ہیں۔ کارکن جلسوں میں کرسیاں بھرنے اور قائدین کی گاڑیوں کے پیچھے دوڑنے اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کےلئے ہیں۔ نواز شر یف کے زور آور پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کا ”ایوان“ سے ”زندان“ میں نیب کا مہمان بننا شاہ سے وفادار سیکرٹریوں کےلئے باعث عبرت ہے۔ہر سرکاری ملازم گریڈ ایک سے 22تک کسی شخصیت کا ملازم نہیں۔وہ ریاست کا ملازم اور اسلامی جمہوری پاکستان کا وفادار ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن