اس وقت ملک کا پورا میڈیا اور سیاسی نظام آئندہ الیکشن اور نواز شریف کے حوالے سے ہمہ وقت تبصروں اور حالات حاضرہ پر گفتگو کر رہا ہے۔ اس پس منظر میں کسی اور موضوع پر کالم تحریر کرنا شاید وقت کا تقاضہ تو نہ ہو لیکن چند روز پہلے ایک ایسا المناک واقعہ وقوع پذیرہوا ہے کہ میں اسے قلم زد کرنا اپنی ذمہ داری محسوس کر رہا ہوں۔
مخدوم طارق محمود الحسن برطانیہ میں مقیم ایک صاحب ثروت، دردمند پاکستانی ہی نہیں بلکہ وہ ایک بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخیر سماجی کارکن اور ایسے صحافی ہیں جو دینی اور روحانی علوم پر بیک وقت دسترس رکھتے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ہمراہ عید الفطر منانے 16جون کو مانچسٹر سے لاہور پہنچے،عید کی خوشیاں منانے کے بعد وہ دو گاڑیوں میں لاہور سے اپنے آبائی شہر کمالیہ کے لیے روانہ ہوئے، مخدوم صاحب اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ ایک الگ گاڑی میں سوار تھے جبکہ ان سے آگے جانے والی کار میں ان کے تین بیٹے ڈرائیور کے ہمراہ تھے۔ بچوں کی گاڑی جب اوکاڑہ کینٹ کے قریب پہنچی تو ایک ٹریلر(مال بردار گاڑی) کو اوور ٹیک کرتے ہوئے گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا اور بے قابو ہو کر سٹرک کے کنارے لگے درختوں سے اس طرح ٹکرائی کہ پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں بیٹے موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ تیسرا بیٹا جو فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا شدید زخمی ہو گیا جو اب تک زیر علاج ہے۔اس حادثے میں ڈرائیور کو معمولی زخم آئے سیٹ بلیٹ باندھنے کی وجہ سے ڈرائیور کی جان بچ گئی۔مخدوم طارق محمود الحسن اور ان کی اہلیہ نے اس دلخراش منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور زخمی بچوں کو راہ گیروں کی مدد سے نکالا، یہ حادثہ 18جون کی شام تقریباً شام سات بجے پیش آیا۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی مخدوم صاحب کے اکثر عزیز اقارب تو اسی رات ان کے پاس پہنچ گئے جبکہ برطانیہ اور دوسرے ممالک میںا ٓباد دوست غم زدہ خاندان سے ہمدردی اور دکھ درد میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے ہیں۔
طارق صاحب سے میری پہلی ملاقات ہر سال تواتر سے برطانیہ میں ہونے والی میڈیا کانفرنس کے موقع پر ہوتی رہی ہے کئی بار میں ان کے گھر بھی گیا اور ایسی محفل میں شریک ہوا جہاں درجنوں صاحب علم و فکر افراد ان سے دنیاوی اور دینی رہنمائی لینے آتے ہیں۔طارق صاحب نے ایام جوانی میں جو روحانی منازل طے کی ہیں ان کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ وہ ایک صاحب فکر وعمل اور قیادت کی صلاحیتوں سے بھر پور انسان ہیں۔ و ہ کمالیہ کی سب سے بڑی روحانی خانقاہ شاہ بابا(سید محمد اکرم صادق) کے سجادہ نشین اور اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ انکے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ طارق صاحب نے برطانیہ سے ایل ایل ایم بھی کیا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ چند سال پہلے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے وہ انوسٹر ویزا پر برطانیہ گئے وہاں گھر خریدا ، کاروبار شروع کیا،اور تینوں بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کروایا ،زندگی خوشگوار اور پرسکون ڈگر پر چل رہی تھی کہ 18جون کو اس اندوہناک حادثے نے ان کی متاع حیات دو بیٹے سید زمان عمر 13سال اور سید محمد علی عمر 9سال پلک جھپکتے ہی ان سے لے لئے جبکہ تیسرا بیٹا سید ظہران عمر 12سال موت و حیات کی کشمکش میں چلا گیا۔اس حادثے کے بعد مخدوم صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ان کا پہلا فقرہ تھا "رائو بھائی کرچی کرچی(ریزہ ریزہ)ہو گیا ہوں میں کہاں اس قابل تھا کہ رب کریم مجھے اتنی بڑی آزمائش میں ڈالتا۔ میرے لیے دعا کریں کہ میں اس آزمائش میں پورا اتر سکوں ،بچوں کے غم میں نڈھال ہوں اور اہلیہ کی حالت دیکھ کر کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔"طارق صاحب کہے جا رہے تھے۔۔۔رائو صاحب زندگی کے اس امتحان کے دو پرچے بڑے سخت اور مشکل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پر بھی پورا اترنا کڑا امتحان ہے۔ وہ پرچے ہیں" صبر "اور" شکر " کے ۔ اللہ نے مجھے یہ دونوں پرچے بیک وقت حل کرنے کو دے دئیے ہیں۔دو بچوں کی رحلت پر صبر کرنا اور ایک بچے کی جان بخشی پر شکر کرنا۔بس میرے لیے دعا کریں کہ میں اس امتحان میں سرخرو ہو جائوں اور رب کریم مجھے اور کوئی آزمائش نہ دے"۔گفتگو کے دوران طارق صاحب بتا رہے تھے کہ جب میں اپنے دونوں لخت جگروں کے جنازے میں شریک تھا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئی مجھ سے سوال پوچھ رہا ہے کہ تم اگر اللہ کی اسی رضا میں اپنی رضا شامل کر کے صبر کر لو اس کے عوض اللہ سے کیا چاہو گے۔ وہ کہہ رہے تھے میں اس پیغام کو بچوں کی تدفین کے وقت بھی محسوس کر رہا تھا۔ اس لمحے مجھے ایک خیال آیا اورمیں نے رب کریم سے دعا کی کہ اے رب کائنات مجھے کچھ نہیں چاہئیے بس مجھے صبر عطا کر اور ان معصوم بچوں کے مرقد پر جو بھی فاتحہ خوانی کے لیے آئے اور اپنے دکھ درد کے مداوے کے لیے دعا کرے ان کی دعائوں کو قبولیت عطا فرما اور ان کی جھولی کو بھر دے۔آمین ۔ وہ کہے جا رہے تھے رائو صاحب آپ کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دین اور دنیا دونوں کے ثمرات سے خوب نوازا ہے ۔مجھے کچھ نہیں چاہئیے سوائے اس کہ رب کریم مجھے صبر اور شکر کی دولت سے نوازے۔ بس اب میری خواہش ہے کہ میں باقی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دوں۔ میں تلاش حق کا مسافر ہوں۔میں ان کی یہ ساری باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ اصل اثاثے مال و دولت اور مرتبے نہیں یہ تو ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے رہتے ہیں اصل دولت وزارت عظمیٰ کا منصب اور اربوں روپے کی جائیداد نہیں بلکہ وہ اولاد ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔اللہ پاک یہ متاع حیات بھی اگر کسی سے چھین لے تب بھی اسے زندگی تو گزارنی ہوتی ہے۔ میری دعا ہے اور قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ مخدوم صاحب کے لیے خصوصی دعا فرمائیں کہ وہ صبر اور شکر کے اس امتحان میں کامیاب ہوں۔پندرہ جولائی اتوار کے دن انہوں نے بچوں کی مغفرت کے لیے کمالیہ میں اجتماعی دعا کا بھی اہتمام کیا ہے۔