عام انتخابات کا اہم مرحلہ جس میں امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کئے جانے تھے بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا لیکن اس مرحلے پر پورے پاکستان میں بالعموم اور جنوبی پنجاب میں بالخصوص دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب مسلم لیگ ن کے شیروں نے اپنے انتخابی نشان تبدیل کرنے کی درخواستیں دے دیں اور جماعتی ٹکٹیں اپنی جماعت کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیں۔ مسلم لیگ ن میں بغاوت کے عمل کا شاید یہ آخری مرحلہ تھا جس میں نہ صرف باغیوں نے ٹکٹیں واپس کر دی ہیں بلکہ جیپ کا نشان الاٹ کروا کر کسی خلائی مخلوق کے نمائندہ ہونے کاتاثر دیا اوربات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ انتخابی مہم میں اپنے لوگوں کو بڑے فخر سے اشاروں‘ کنایوں میں بتا رہے ہیں کہ ووٹ انہیں دو کامیابی کے بعد وہ بھی بیٹ کے ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ ن میں پچھلے تین ہائیوں سے باغی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ جو جماعت ،اس کے نظریے اور قیادت کے ساتھ مخلص چلے آرہے تھے لیکن قیادت جب خوشامدیوں کے نرغے میں آ گئی تو پرانے ساتھیوں کو خوشامدانہ رویہ اور اس پر قیادت کا سردھننا ایک آنکھ نہ بھایا۔ مسلم لیگی قیادت نے جلاوطنی کے زمانہ میں اپنے لوگوں کو اجازت دی تو ایک کثیر تعداد ق لیگ میں چلی گئی اور جلا وطنی کے خاتمہ کے ساتھ ہی ق لیگ تحلیل ہو گئی تو وہ کارکنان نہ صرف واپس آ گئے بلکہ آمریت کے دور کے وہ ساتھی، جوہمیشہ آمریتی دور میں اپنی بلوں سے باہر نکلتے ہی ان کو بھی ساتھ لائے۔ جلاوطنی کے دور میں مسلم لیگی قیادت کے چند قریبی ساتھی کسی جماعت میں شامل نہ ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ان ساتھیوں نے خاموش احتجاج کیا۔ عاجزانہ انداز میں تنقید بھی کی لیکن بقول کسے‘ اقتدار شریف قیادت کے اندر حلول کر چکا ہے لہٰذا انہوں نے کسی کارکن‘ عہدیدار اور لیڈر کی باتوں‘ مشوروں اور احتجاج کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔ ادھر پانامہ لیکس کا معاملہ تیزی سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا تھا اوریہی وہ نازک موڑ تھا جب پارٹی میں باغی سامنے آئے۔ کچھ تو باغی ہوئے اور پھرداغی کہلائے لیکن زعیم قادری اور چودھری عبدالغفور جیسے باغیوں نے مروت سے کام بھی نہ لیا اور بہت کچھ کہہ گئے۔ شاید ان کیلئے وہی اہم نکتہ تھا جس سے آگے وہ نہیں جا سکتے تھے۔ ان باغیوں میں چودھری نثار علی خان وہ واحد شخص ہیں جو دھیمے مزاج میں قیادت کے ساتھ چلتے رہے۔ باتوں ‘ مشوروں سے بات احتجاج تک پہنچی تو پھر بات بگڑتی گئی۔
حسبِ معمول پارٹی میٹنگوں میں وہی خوشامدی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے والے رہنما اپنے ہی طریقوں سے میاں نوازشریف کو شیشے میں اُتارنے کی مہارت حاصل کر چکے تھے۔ایسی ہی ایک میٹنگ میں چودھری نثار علی خان نے سب کے سامنے خوشامدانہ رویوں سے میاں نوازشریف کو دور رہنے کا مشورہ دے ڈالا۔ اسی میٹنگ میں صدرمجلس نوازشریف نے ایک چٹ چودھری نثار علی کو بھجوائی جس پر لکھا تھا کہ ’’آپ میری توہین کر رہے ہیں۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ وہ چٹ آج بھی چودھری نثار علی خان کے پاس موجود ہے۔ ’’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ کے مصداق دوریوں کی ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی کہ ہم سب ساری صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں۔
جیپ کے انتخابی نشان پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے ایک امیدوار جو آج بھی شیر کے نشان پر انتخاب میں اُترے ہیں کہ وہ بتا سکیں کہ اس مشکل مرحلہ پر وہ ان کے ساتھ ہیں اور صرف اس خوف سے ساتھ ہیں کہ کہیں مسلم لیگ ن چوتھی بار بھی اقتدار میں آ گئی تو پھر کیا بنے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ جیپ کا انتخابی نشان مسلم لیگ ن کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ جبکہ رانا ثناء اﷲ نے حسبِ عادت وکھرے سٹائل میں جولائی کے عام انتخابات کے بعد سنجرانی فارمولا دہرانے کی بات کی ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تو برملا کہا کہ جس نے وفاداری تبدیلی کی اسے جیپ کا نشان الاٹ کیا گیا اور ساتھ ہی چودھری نثار علی خان کو جیپ کے نشان کی مبارک بھی دے ڈالی۔ مریم نواز نے تو واضح طور پر۔ دیار غیر میں بیٹھ کر اس ساری کارروائیوں کا ذمہ دار ایک حساس ادارے کو دے ڈالا اور بڑے میاں نے تو اپنے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی کے گودام پر چھاپے کا ذمہ دار بھی اسی ادارے کو ٹھہرایا۔ چودھری نثار علی خان کا یہی قصور تھا کہ پانامہ لیکس کے بعد اپنی قیادت کو عدلیہ اور اپنے اداروں سے نہ ٹکرانے کا مشورہ دیا اور مسلسل دیتے رہے اور پھر سب نے دیکھا کہ اسے مسلم لیگی ٹکٹ کے قابل بھی نہ سمجھا گیا اورایک دوسرے کو اپنے احسانات یاد کرائے جا رہے ہیں۔
اب پانامہ کیس کے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے‘ میاں نوازشریف کو تمام ساتھی چھوڑ چکے ہیں۔ درجنوں امیدواروں نے جو جیپ اور بالٹی کے نشان پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں چودھری نثار علی خان سے رابطہ کر چکے ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد چودھری نثار علی خان کا جیپ گروپ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت بنانے میں اہم رول ادا کرے گا۔ جبکہ پانامہ کے فیصلے بھی ہو چکے ہونگے۔ جو دوست رہ جائیں گے وہ سزاؤں کے بعد تتر بتر ہو جائیں گے لیکن پارٹی کے اجلاسوں میں وہ وفادار‘ دوست‘ ساتھی ‘ اچھی باتیں ‘ مشورے دینے والے نہیں ہونگے اور جب اپنے سینئر بھی مخالف جماعت اور مخالف سیاسی گروپوں کے حامی بنے بیٹھے ہوں تو پھر پیچھے کیا رہ جائے گا۔ پھر لامحالہ ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ’’جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔‘‘