مسلمانان بر صغیر میں علیحدہ وطن کی جستجو اپنے عروج پر تھی لہذا 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں ایک پروقار اور تاریخ ساز اجتماع میں مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے حصول کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ۔ ہندوستان میں ایسے مسلمانوں کی بھی کمی نہ تھی کہ انگریز اور ہندو کی رفاقت کا دم بھرتے جن میںنمایاں کردار نیشلسٹ علماء اور سرحد و بلوچستان کے پٹھان رہنمائوں کا تھا ان کا موقف تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ایک قوم ہیں ۔ ہمیں مسلم و غیر مسلم کی تفریق سے گریز کرنا چاہئے کاش یہ لوگ بھی مسلم لیگ کے ہمنوا ہوتے تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ ہندو سے قربت اور جزوقتی مفاد کی خاطر مسلم قومیت کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ۔ انگریز ہندو اور نیشنلسٹ علماء کی ہزار کوششیں حضرت قائداعظم کے مدلل موقف کے آگے سرنگوں اور نامراد ہوئیں اور تقسیم ہند کا فارمولا تیار کرنا پڑا ۔
پارٹیشن پلان کے تحت پنجاب اور بنگال کی تقسیم مسلم اکثریتی ریاستیں خودفیصلہ کریں گی کہ کس کے ساتھ شامل ہونا ہے ۔ صوبہ سندھ کا فیصلہ صوبائی اسمبلی کرے گی ۔ بلوچستان کا فیصلہ شاہی جرگہ نے کرنا ہوگا صوبہ سرحد اور بہار کے ضلع سلہٹ کو مسلم بنگال سے ملا کر ریفرنڈم کرایا جائے گا لہذا پلان کے مطابق ایسا ہی ہوا ۔ سندھ اسمبلی اور بلوچ جرگہ نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا ۔ سلہٹ کے عوام نے بھی پاکستان کے ساتھ رہنے کا اعلان کیا صوبہ سرحد ایک ایسا علاقہ تھا جہاں کانگریسی مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ ڈاکٹر خان وزیر اعظم اور عبدالغفار خان سرخ پوش قائد تھے جو ہند و اور کانگریس کے اتنے قریب تھے کہ خود کو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ۔ صوبہ سرحد کی آبادی 91 فیصد مسلمانوں اور 6 فیصد دوسری اقوام پر مشتمل تھی اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے ۔ حضرت قائداعظم نے 3 جون کی شام آل انڈیا ریڈیوپر قوم سے خطاب کرتے ہوئے صوبہ سرحد کے مسلم لیگی رہنمائوں کو ہدایت جاری کی کہ سول نافرمانی کی تحریک واپس لی جائے اور ریفرنڈم کیلئے رائے عامہ ہموار کی جائے ۔ مسلم لیگی تنظیم کو مضبوط بنائیں دوسری جانب صوبہ سرحد کی کانگریس نے مطالبہ کیا کہ صوبہ کو انڈیا میں شامل کیاجائے یا جملہ پختونوں کیلئے ایک آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے ۔ پٹھانوں سے کانگریس کی جانب سے اپیل کی گئی کہ وہ اس ریاست کے قیام کیلئے متحد ہوجائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں ۔یہ مطالبہ گاندھی نے وائسرائے ہند کو پیش کیا ان کا کہنا تھا کہ پٹھانستان یا پختونستان ایک فلاحی اسلامی ریاست ہوگی جو بھارت کے ساتھ مل کر رہے گی ۔ نومولود پاکستان میں جاگیردار ٹولہ مسلم لیگ کی قیادت سے خوفزدہ تھا ۔ مہاراجہ کشمیر نے بھارت کو حملے کی دعوت دی بھارت نے نہ صرف حیدرآباد مانا در اور جوناگڑھ پر زبردستی قبضہ کیا بلکہ دوسری ریاستوں کو بھی پاکستان کیخلاف بہکانے میںمصروف رہا ۔ بہاولپور، قلات ، خیر پور کے علاوہ دیگرریاستوں کو پاکستان کیخلاف امداد کی پیشکشیں کی گئیں ۔ مسلم لیگ نے پوری توجہ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم پر مبذول کئے رکھیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیو ر سٹی اوراسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ مسلم لیگی خواتین اور زعماء پورے صوبے میں پھیل گئے ۔ غیور پٹھانوں کو ان کے اجداد کے کارناموں کے ساتھ اسلامی ملی غیرت کا ایسادرس دیا جس کے نتیجے میں 7 جولائی 1947ء کو مسلم لیگ نے سرحدی گاندھی کی کانگریس کی سیاست کو ملیا میٹ کر تے ہوئے ایک تحصیل تک محدو د کردیامسلم لیگ صوبہ سرحد کے عوام کی دلوں کی دھڑکن بن گئی ۔
حق تو یہ تھا کہ ہر سال اس ریفرنڈم کو قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا مگر بدبختی کہیں یا حوادث حالات 1985ء غیر جماعتی اسمبلی میں بننے والی مسلم لیگ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جنہوں نے صوبہ سرحد میںمسلم لیگ کو بلڈوزکرتے ہوئے باچہ خانی باقیات کو دوبارہ سنبھالا دینا شروع کیا انہوں نے سرحد کے سینمائوںمیں فحش فلموں آٹا اور غذائی اشیاء کی افغانستان میں سمگلنگ کرکے خوب مال کمایا ۔2008 میں اس مال حرام کے بل پر صوبہ سرحد میں حکومت بنا کر اپنے عزائم کی تکمیل پر گامزن ہوکر صوبے کا نام اپنے ابتدائی منشور کے مطابق تبدیل کیا اس گھنائونے کھیل میں دشمنوں کے علاوہ خود مسلم لیگی بھی شامل نظر آئے۔ میاں نوازشریف کے اس غلط فیصلے نے انکے ساتھیوں ہمدردوں اور حمایتوں کی آنکھیں نم اور سرخم کردیے ۔ دو قومی نظریے کی مخالف قوتوں جمعیت علمائے اسلام جماعت اسلامی اور اے این پی نے متحد ہو کر صوبے کے نام کی تبدیلی کے بہانے ملک کی بنیادی اساس پر وار کرتے ہوئے مسلم قومیت کی بنیاد پر بننے والی ریاست کو چار قوموں کا مرغوبہ ثابت کرنے کی ناکام جسارت کی اس کانام علاقائی اور لسانی بنیاد پر رکھ کر وفاق پاکستان پر کاری ضرب لگائی ۔ پیپلز پارٹی سے گلہ نہیں بنتا وہ اختیار اور اقتدار کی خاطر قومی غیرت اورحمیت کی پرواہ نہیں کرتے ۔ صوبہ سرحد جو خون آشوب دہشتگردی میں پھنسا تھا گل پوش پہاڑوں کے سرفروش بیٹوں کو حضرت قائداعظم کے وژن کی جانب لوٹنا ہوگا ۔ اتحاد یقین اور تنظیم کے سنہرے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ ملی جذبوں سے سرشار ہو کر ہر سال 6,7 جولائی کو ریفرنڈم ڈے کو ایک قومی تہوار کے طور پر منانا ہوگا تاکہ حضرت حسن البنائ،سید قطب شہید، جمال الدین افغانی اور حضرت اقبال کے مسلم ملت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔