’’بدلتا‘‘ سیاسی منظر نامہ

وفاقی بجٹ 2019-20ء کی منظوری کا دن تھا پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈر چیمبر کے ساتھ والے کمرے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھجوایا گیا ’’پرتکلف ظہرانہ‘‘ شاہد خاقان عباسی ، رانا ثنا اللہ ، مرتضیٰ جاوید،مریم اورنگزیب ،خواجہ آصف اور دیگر مسلم لیگی رہنما ’’تناول ‘‘ فرما رہے تھے میں نے رانا ثنا اللہ کو بڑا مطمئن دیکھا ۔ وہ مسلم لیگی ارکان قومی اسمبلی کو بتا رہے تھے کہ ’’انہیں حکومت نے گرفتار کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے لہذا وہ کسی وقت بھی پابند سلاسل کئے جا سکتے ہیں لیکن میں یہ بات اپنے ساتھیوں کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں رانا ثنا اللہ کسی طاغوتی قوت سے خوفزدہ نہیں ہوا،نواز شریف میرا لیڈر ہے میں جیل جا سکتا ہوں نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا ‘‘۔ اس ملاقات کے پانچ روز بعد راناثنا اللہ کو ’’منشیات ‘‘ کی برآمدگی پر دھر لیا گیا ۔ مجھے رانا ثنااللہ کی گرفتاری پر اس لئے حیرت نہیں ہوئی کہ وہ کئی دنوں سے اپنی گرفتاری بارے میں برملا خدشات کا اظہار کر رہے تھے لیکن ان کی گرفتاری جس الزام میں عمل میں لائی گئی اس پر حیرت ضرور ہوئی ۔ کسی سیاست دان اور وہ بھی جس کا تعلق پنجاب سے ہو کس طرح اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہو سکتا ہے ؟ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ایک ہفتہ بعد عمل میں لائی گئی رانا ثنا اللہ کا شمار پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ’’ہارڈ لائنر‘‘ میں ہوتا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے’’ دبنگ ‘‘ لیڈر ہیں ان کا میاں شہباز شریف کے قابل اعتبار قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے ان کو پاکستان مسلم لیگ(ن) پنجاب کا صدر بنایا گیا ہے یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ رانا ثنا اللہ ہی واحد مسلم لیگی رہنما ہیں جن کی زبان کی کاٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے ’’سورمائوں ‘‘ کے پسینے چھڑا دئیے ہیں عام اندازہ تھا کہ ان کے خلاف نیب کا کوئی کیس بنا دیا جائے گا یا پھر ان کو کسی اور ’’ناکردہ گناہ ‘‘ میں دھرلیا جائے گا لیکن ان کو 15کلو ہیروئن کی سمگلنگ میں گرفتار کیا گیا ہے ان پر 9سی لگائی گئی ہے جس کی سزا عمر’’ قید یا موت ‘‘ہے پوری حکومت رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا رانا ثنا اللہ سے’’ پیچا ‘‘ لڑا ہی رہتا ہے لیکن اب وہ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری پر ’’خاموش ‘‘ ہیں۔ آصف علی زرداری کے خلاف ماضی میں کئی مقدمات کئے گئے لیکن ان میں خطرناک کیس ان سے ’’منشیات کی برآمدگی کا ہے آصف علی زرداری کئی سال تک اس الزام میں جیل میں رہے پھر وہ باعزت بری ہو گئے ۔ حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی محمد حنیف عباسی ’’ایفی ڈرین ‘‘ کیس میں ’’جیل یاترا سے واپس آئے ہیں ان کی ضمانت پر رہائی کے دوران لاہورٹ ہائی کورٹ کے جج کے ریمارکس سے کیس کی حقانیت کا پول کھل جاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو کا شمار ملک کے مقبول ترین لیڈروں میں ہوتا ہے لیکن ان کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں نے ان ’’تختہ دار‘‘ تک پہنچا دیا ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ماضی کی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کو برداشت کیا لیکن آج محض حکومتی اقدامات نے اپوزیشن کو متحد کر دیا ہے حمزہ شہباز شریف ،خواجہ سعد رفیق ،خواجہ سلیمان ، فریال تالپور ،سندھ اسمبلی کے سپیکر کی گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری اور رانا ثنا اللہ کو’’ سرکاری مہمان‘‘ بنا لیا گیا ہے میاں شہباز شریف ضمانت پر ہیں لیکن وہ تاحال نیب کے سامنے ’’پیشیاں ‘‘ بھگت رہے ہیں شاہدخاقان عباسی ، بلاول بھٹو زرداری خواجہ آصف ، احسن اقبال ، امیر مقام سمیت متعد د رہنما نیب کی گرفتاریوں کے منتظر ہیں۔
ایمنسٹی سکیم کی آخری تاریخ سے ایک روز قبل ہی اے بی آر نے’’ بے نامی اراضی‘‘ کے خلاف کارروائی شروع کر دی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری تنویر خان سے منسوب 6ہزار اراضی ’’منجمد‘‘ کر دی اس اراضی میں جو پانچ نام بتائے گئے ہیں ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ چوہدری تنویر خان کے ملازمین ہیں جب کہ ان میں سے تین نام چوہدری تنویر خان کے خسر عبدالعزیز، خوشدامن شاہجہاں (مرحومہ ) اور برادر نسبتی عبدالشکورکے ہیں عبد العزیز ایک ریٹائرڈ افسر ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں موٹروے پر موضع راجڑ راولپنڈی کی حدود میں واقع بنجر اراضی کی قیمت کے بارے میں نوٹس موصول ہونے پر کوئی بات حتمی طور کہی جا سکے گی چوہدری تنویر خان جو علاج معالجہ کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں کی وطن واپسی پر ہی حقائق سامنے آئیں گے۔رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ’’دھماکہ خیز‘‘ پریس کانفرنس کر کے سیاسی حلقوں میں ’’ہلچل‘‘ مچا دی ہے انہوں نے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا ہے ہم وہ عدلیہ کے احترام میں شائع نہیں کر رہے لیکن مریم نواز نے جو کچھ شواہد پیش کئے ہیں ان کے بارے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کرانی چاہیے تاکہ حقائق سامنے آسکیں یہ ایک حقیقت ہے آصف علی زرداری نے ہی عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اپوزیشن کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا ہے مولانا فضل الرحمنٰ اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے اور اجتماعی استعفے دینے پر تلے ہوئے تھے لیکن آصف علی زرداری نے جمہوریت کو’’ ڈی ریل‘‘ ہونے سے بچالیا آصف علی زرداری نے پاکستان تحریک انصاف سے ملک کر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایا لیکن حکومت نے انہیں دیوار سے لگا نے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے آئے روز ان کی مختلف مقدمات میں گرفتاری عمل میں لائی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ ’’سٹریٹ پاور‘‘ سے حکومت گرانے کی مخالفت کر رہے ہیں یہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے مولانا فضل الرحمنٰ کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں حکومت گرانے کے لئے تحریک شروع کرنے کا اعلان شامل نہیں کرنے دیا لیکن اب آصف علی زرداری نے اپنے ہی ووٹوں سے بنائے گئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ کر کے در اصل تمام قوتوں کو ’’بدلتے سیاسی منظر نامہ‘‘ کا ’’سندیسہ‘‘ دیا ہے۔سینیٹ میں اپوزیشن کو بھاری اکثریت حاصل ہے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری ہو گی تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے پوری اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر متحد ہے لہذا چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد 60زائد ووٹوں سے منظور ہو جائے گی اگرچہ ابھی تک رہبر کمیٹی نے تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد چیئرمین کے لئے امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا تاہم رہبر کمیتی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی پالیمنٹیرین کے سیکریٹری جنرل نیر حسین بخاری نے تجویز پیش کی ہے کہ آئندہ چیئرمین شپ سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کو دے دی جائے دوسری صورت میں دونوں اکثریتی جماعتوں کو اس بات کا اختیار دے دیا جائے کہ وہ مل بیٹھ کر نئے چیئرمین کا فیصلہ کر لیں تیسری صورت میں کسی اقلیتی جماعت کے رکن کو چیئرمین بنانے پر اتفاق رائے کر لیا جائے پاکستان پیپلز پارٹی جس کی نظریں چیئرمین کے منصب پر لگی ہوئی ہیں آصف علی زرداری سلیم مانڈوی والا کو چیئرمین بنوانا چاہتے ہیں اور وہ اس شرط پر چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کی یقین دہانی کراتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کا چیئرمین بنایا جائے لیکن رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے موقف میں لچک دیکھنے میں آئی ہے اگر اکثریتی پارٹی سے چیئرمین بنایا گیا تو ’’ہما‘‘ راجا محمد ظفر الحق کے سر جا بیٹھے گا اگر دو بڑی سیاسی جماعتوں کو چیئرمین نامزد کرنے کا اختیار دے دیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) سے چیئرمین شپ دینے کے عوض خالی ہونے والی قائد حزب اختلاف کی نشست کی ’’فرمائش‘‘ کر سکتی ہے اگر فیصلہ یہ ہوا کہ بلوچستان سے چیئرمین بنایا جائے تو قرعہ فال میر حاصل بزنجو کے نام نکل سکتا ہے ۔ بہر حال آنے والے دنوں میں سیاسی منظر واضح ہو جائے گا سیاسی حلقوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے ستمبر، اکتوبر اور نومبر 2019ء کو ملکی سیاست میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ان تین مہینوں میں ’’سیاسی شورش ‘‘ برپا ہو سکتی ہے جو سیاسی’’ منظرنامہ ‘‘ تبدیل کر سکتی ہے بہر حال حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے وہ اپنے دروازوں کو کھول کر اپوزیشن سے ’’سیاسی ڈائیلاگ ‘‘ کا ماحول بنائے ۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی بجائے سینے سے لگانے سے ہی صورت حال میں بہتری آسکتی ہے بصورت دیگر سارا کھیل بگڑتا نظر آرہا ہے اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ۔ نہ جانے اس ’’کھیل ‘‘کا انجام کیا ہو گا سوچ سوچ کر خوف آتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن