مادرِ ملتؒ اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘

روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کا ایک اور بھی اصول رہا ہے کہ اس نے کبھی کسی شخص کی کردار کشی نہیں کی بلکہ محض اس کے نظریات اور سیاست سے اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ جونہی کوئی شخص اقتدار کے ایوانوں سے باہر آتا تھا ’’نوائے وقت‘‘ اس پر تنقید بند کر دیتا تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ اگر کوئی شخص جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کیلئے آواز بلند کرتا تو ’’نوائے وقت‘‘ اس کا بھر پور ساتھ دیتا۔ اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دی جاسکتی ہے۔ وہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کو چھوڑ کر عوامی قوتوں کی صفوں میں شریک ہوئے تو یہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ ہی تھا جس نے بدترین آمریت میں بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ البتہ ’’نوائے وقت‘‘ نے ان افراد کو کبھی قبول نہیں کیا جو ملک کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف ہیں۔ ملک توڑنا چاہتے ہیں یا مذہب و ملّت کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
مادر ملتؒکی حمایت
1964ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میںبنیادی جمہوریتوں کے 80ہزار ممبران کا انتخاب مکمل کراچکے تھے۔ پھر انہیں 80ہزار ممبران کو صدارتی انتخاب کیلئے انتخابی ادارہ بنا دیا گیا۔ اس طرح ایوبی آمریت نے پاکستان کے ہر عاقل اور بالغ شخص مرد اور عورت کو صدارتی انتخاب میں براہ راست ووٹ ڈالنے کیلئے نااہل قرار دے دیا۔ انتخاب سے قبل سب سے بڑی دھاندلی یہی تھی۔80ہزار ممبران بنیادی جمہوریت کو قابو میں رکھناایوب خان اور اس کے حواریوں کے لیے آسان کام تھا۔ متحدہ اپوزیشن کے پاس اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں لانے کیلئے کوئی بھی صدارتی امیدوار نہیں تھا۔ چنانچہ کونسل مسلم لیگ کے لیڈروں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ پھر دوسری جماعتوں عوامی لیگ‘ نظام اسلام پارٹی‘ جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی (ولی خان گروپ) نے بھی مادرِ ملتؒ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
مادر ملتؒ کا خطاب
محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ’’مادرِ ملّتؒ‘‘ کا خطاب ’’نوائے وقت‘‘ نے ہی دیا تھا۔ مادرِ ملتؒ ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب کے میدان میں اتریں تو فوجی اقتدار کے قلعہ میں زلزلہ آگیا۔ مادرِ ملتؒ کے عام جلسوں میں حاضرین کی تعداد دن بدن بڑھتی گئی اور اخبارات حتیٰ کہ ٹرسٹ کے اخبارات بھی ان کی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایوب خان بوکھلا اٹھے چنانچہ ان کے حکم پر وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے قومی اخبارات کو پریس ایڈوائس جاری کی گئی کہ ’’محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نام کے ساتھ مادرِ ملتؒ‘‘ نہ لکھا جائے۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے سوا تمام اخبارات نے یہ پریس ایڈوائس تسلیم کرلی اور مادرِملتؒ کی تقریروں کو توڑ مروڑ کر شائع کرنا شروع کر دیا۔
روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے بانی مدیر جناب حمید نظامی پر بانیء پاکستان حضرت قائداعظمؒ بے حد اعتماد کرتے تھے اور ان کی ہمیشرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ ،روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کو نہایت موقر‘ وقیع اور بااعتماداخبار قرار دیتی تھیں۔ مادرِ ملتؒ نے دسمبر 1964ء میں ایک جلسہ میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا:’’ سرکاری اخبارات نے میری تقریریں غلط شائع کیں اور میں نے سوالات کے جو جوابات دئیے تھے انہیں غلط اور گمراہ کن عنوان لگا کر پیش کیا۔ اخباروں میں جو کچھ چھپتا ہے آپ اس پر اعتبار نہ کریں یہ ان کے خریدے ہوئے اخبار ہیں۔ یہ سب ٹرسٹ کے اخبار ہیں۔پاکستان میں اُردو کا اخبار صرف ’’نوائے وقت‘‘ ہے جو ہمت کرکے سچی بات کہتا ہے۔‘‘
مادرِ ملتؒ صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ ہوئیں تو جنرل ایوب خان اور اس کے حاشیہ نشینوں کے ہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ان کا خیال تھا مادرِ ملتؒ نحیف وناتواں ہونے کی وجہ سے اپنی سیاسی مہم پر زورانداز میں نہیں چلاسکیں گی اس لئے بری طرح ہار جائیں گی لیکن محترمہ فاطمہ جناحؒ کی انتخابی مہم کو روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے اس قدر موثر اور دلیرانہ انداز میں پیش کیا کہ مادرِملتؒ کا پیغام اور منشور ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نہ صرف مادرِملتؒ کی صفات کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچا رہا تھا بلکہ ان بے بنیاد الزامات کا بھی مدلل جواب دے رہا تھا جو حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کی جانب سے مادرِملتؒ پر لگائے جارہے تھے۔ مشکل یہ درپیش تھی کہ ایک جانب روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ اکیلا تھا اور دوسری طرف پورا مقبوضہ پریس اور ذرائع ابلاغ تھے۔ تاہم ’’نوائے وقت‘‘ چونکہ حق پر تھا اس لئے عوام اس کی تحریروں کا زیادہ اثر قبول کرتے تھے۔
نوائے وقت کا کردار
فوجی ڈکٹیٹر کی جانب سے مادرِملتؒ پر جو سب سے خطرناک حملہ کیا گیا وہ تھا اسلامی مملکت میں ایک خاتون کا سربراہ بننا۔ اس کا اثر زائل کرنے کیلئے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنے صفحات پر بے شمار علمائے کرام کے فتوے شائع کیے جنہوں نے اپنے دلائل و براہین سے ثابت کیا کہ عورت ملک کی سربراہ بن سکتی ہے۔ علمائے عظام کے فتوئوں کے علاوہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے ادارتی صفحات پرصاحب الرائے شخصیتوں کے مضامین اور خبروں کے صفحات پر بیانات بھی چھاپے جن میں عورت کی حکمرانی جائز قرار دی گئی تھی۔ غرض یہ کہ انتہائی طاقت ورسرکاری پروپیگنڈا مشینر ی کے مقابلے میں رونامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنی خبروں‘ اداریوں‘ کالموں‘ مضامین اور جلسوں کی رپورٹوں اور جھلکیوں کے ذریعے ایوان اقتدار میں کھلبلی مچادی۔
روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے اس دور کے چند اداریوں کے اقتباسات ملا خطہ کیجئے۔
15اکتوبر 1964ء کو ’’نوائے وقت‘‘ کا اداریہ تھا۔
’’ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے میدان انتخاب میں اتر نے سے ملکی سیاست میں یک بیک ایک جاندار اور خوشگوار تبدیلی ہوئی ہے۔ انتخابی معرکہ یک طرفہ اور بے رنگ نہیں رہا۔ بلکہ اسے دو مضبوط اور تقریباً مساوی طاقت کے فریقین کے درمیان ایسی نبردآزمائی کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جس میں ہر فریق اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے پر مجبور ہوجائے گا۔ملکی سیاست میں یہ ایک ایسی خوشگوار تبدیلی ہے جس پر ہر جمہوریت پسند شخص کو دلی اطمینان ظاہر کرنا چاہیے۔ صدر ایوب نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز پشاور سے کیا ہے۔ وہاں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جہاں انہوں نے اپنی صوابدید کے مطابق ملک کے حالات اور ثقافتوں کا تجزیہ کیا ہے وہاں انہوں نے دو ٹوک اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ عوام ہی اپنی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کے مجاز و مختار ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے حاکم اور مقتدر ترین فرد کی طرف سے اس حقیقت کا برملا اعتراف کہ عوام ہی اپنی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کے مجاز و مختار ہیں ایک ایسی بات ہے جس کا واشگاف اظہار اس سے پہلے اس طرح کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہماری اس گزارش سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ہم یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ سلطانی جمہور کا اس طرح علم بلند ہونے میں اپوزیشن کی اس مضبوطی کا سب سے زیادہ حصّہ ہے جو مادرِملتؒ کے میدان انتخاب میں اترنے سے اپوزیشن کونصیب ہوئی ہے۔ حکومتی پارٹی نے اس مضبوطی کو اپنے لئے چیلنج سمجھ لیا ہے اور اس کا اظہار ملک بھر میں ہونے لگا ہے۔ اب اپوزیشن کو بھی حسن فکر‘ حسن کردار اور حسن تنظیم سے واضح کردینا چاہیے کہ وہ اس مضبوطی کی اہل اور مستحق ہے۔اپوزیشن کی طرف سے یہ وضاحت جس قدر جاندار اور موثر ہوگی پاکستان میں سلطانی جمہور کا پرچم اسی قدر شان دلآویزی سے اور بلندی پر لہرائے گا۔‘‘ (جاری)

ای پیپر دی نیشن