خود مختار مقامی حکومتیں مستحکم پاکستان

قیام پاکستان کے بعد سیکیورٹی خدشات کی بنا پر پاکستان کے مختلف صوبوں کو 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کے مطابق صوبائی خود مختاری نہ دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان کا اندرونی استحکام شدید خطرات سے دوچار ہو گیا۔ اگر اس مرحلہ پر مقامی حکومتوں کا نظام نافذ کر دیا جاتا اور پاکستان کے عوام سیاست اور جمہوریت کے شریک کار بن جاتے تو ان میں احساس محرومی کے جذبات پیدا نہ ہوتے جو پروان چڑھتے رہے اور آخر کار پاکستان دو لخت ہو گیا۔ دنیا کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جن ملکوں میں مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا گیا اور عوام کو ریاست کی حکمرانی میں شامل کیا گیا ان ملکوں نے دنیا میں ترقی کی جبکہ مضبوط مرکز کی پالیسی نے ریاستوں کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار کیا۔ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہ کرنے والے ملک سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہ ہو سکے۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سول ملٹری بیوروکریسی نے مضبوط مرکز کی پالیسی تشکیل دی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ یونین کونسل جمہوریت کا بنیادی یونٹ ہوتا ہے جس پر قومی جمہوریت کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے سلسلے میں پاکستان کی تاریخ بڑی دلچسپ رہی ہے۔ امر جرنیلوں نے اپنے ادوار میں اقتدار کو دوام اور جائز قرار دینے کے لئے اور گراس روٹ لیول پر اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کرائے اور مقامی حکومتیں قائم کیں مگر جب بھی کوئی منتخب حکمران اقتدار میں آیا اس نے جمہوری اصولوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کو اکثر اوقات التوا میں ڈال دیا۔ پاکستان میں چونکہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام چلایا جا رہا ہے لہٰذا طاقتور اشرفیہ اپنے اختیارات اور اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتی تا کہ ان کے معاشی مفادات محفوظ رہیں۔ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر قیام پاکستان کے بعد تحریک پاکستان کی روح کے مطابق مقامی حکومتوں کا نظام قائم کر دیا جاتا تو بنگلہ دیش کبھی نہ بنتا۔ ایک جملے میں کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش سیاسی اور معاشی استحصال کے نتیجے میں قائم ہوا۔ مقامی حکومتوں کے سلسلے میں کینیڈا کا نظام دنیا کا مثالی نظام قرار دیا جاتا ہے۔
چین میں بھی اگرچہ مرکزیت کا نظام موجود ہے مگر چین کے لیڈروں نے عوام کو بھی اقتدار میں شامل کر رکھا ہے۔ چین کے 89 فیصد سرکاری ملازمین مقامی حکومتوں کے ماتحت ہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 140 اے کے مطابق مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے اور اقرار کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کو سیاسی مالی اور انتظامی طور پر خودمختار بنایا جائے گا۔ افسوس ناک اور شرم ناک امر ہے کہ اٹھارویں ترمیم منظور کرنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرآمد نہیں کیا اور اکثر اوقات بلدیاتی انتخابات کو کو التوا میں ہی رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے دباؤ پر اگر بلدیاتی انتخابات کرائے بھی گئے تو صوبائی حکومتوں نے ان کو آئین کے مطابق اختیارات منتقل نہ کیے۔ اٹھارویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل نمبر 6 کو مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کے لیے اس میں suspend یعنی معطل کرنے کا لفظ شامل کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ آئینی فرض ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل نمبر 6 کا جائزہ لے اور اس کی تشریح کرے کہ کیا یہ آرٹیکل ان حکمرانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو آئین کے آرٹیکلز کو اپنے ذاتی گروہی اور سیاسی جماعتی مفادات کے تحت زیر التوا اور تعطل میں رکھتے ہیں۔ حکمران آئین کے آرٹیکل کے مطابق بلدیاتی انتخابات نہیں کراتے اور اختیار ات نچلی سطح تک منتقل نہیں کرتے۔ اسی طرح آرٹیکل 25 اے کے مطابق حکمران بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم نہیں دیتے۔ جس کے نتیجے میں آج بھی دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان محترم گلزار احمد کو عوام کے ان بنیادی حقوق کا نوٹس لینا چاہئے۔ تاکہ پاکستان کے شہریوں کو بلا تعطل بنیادی حقوق تسلسل کے ساتھ ملتے رہیں۔
گزشتہ 73 سال کے بعد بھی پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو سکا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو نظام حکمرانی میں شامل کیا جائے اور ان کے بنیادی مسائل عوام کے ہی سپرد کر دئیے جائیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بااثر سیاست دانوں اور حکمرانوں نے قومی دولت اپنے انتخابی حلقوں میں صرف کردی جس کی وجہ سے پاکستان میں مساوی ترقی نہیں ہو سکی۔ بلوچستان جنوبی پنجاب اندرون سندھ اور فاٹا کے علاقے آج بھی پسماندہ ہیں۔ اگر ہم آئین کے مطابق دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو روکنا چاہتے ہیں۔ ظلم ناانصافی اور استحصال اور لوگوں کے احساس محرومی اور علیحدگی پسند رجحانات کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط اور مستحکم بنا دیا جائے۔ علیحدگی پسند رجحانات کو بندوق کی گولی سے نہیں روکا جا سکتا۔ ہمیں نوجوانوں کے احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کا بہترین ذریعہ مقامی حکومتیں ہیں۔ مقامی حکومتوں سے ہی پاکستان میں مساوی ترقی ہو سکتی ہے اور نوجوانوں کو مقامی حکومتوں میں شامل کرکے ان کی ناراضگی اور مایوسی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام مضبوط خودمختار مقامی حکومتوں کے بغیر قائم نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے مئی 2019ء میں بلدیاتی حکومتوں کو معطل کردیا۔ وہ بلدیاتی انتخابات کے تسلسل کو قائم رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے روح رواں محمد زاہد اسلام نے مقامی حکومتوں پر قابل ستائش تحقیقی کام کیا ہے۔ انہوں نے پنجاب حکومت کو مشورہ دیا ہے۔ نیا بلدیاتی نظام سادہ سمارٹ جمہوری انداز میں شراکتی اور اختیارات کی مرکزیت سے پاک ہونا چاہئے۔ اس میں ہر طبقہ مزدور کسان خواتین اور نوجوانوں کی مناسب اور معقول نمائندگی ہونی چاہیے۔ اس نظام میں ہر کونسلر اور ہر سطح کی لوکل گورنمنٹ کے اختیارات فرائض اور فنکشنز کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ترقیاتی کاموں کی نگرانی مانیٹرنگ منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی سطح پر عوامی شراکت اور مشاورت یقینی بنائی جائے۔ پنجاب حکومت کے نئے بلدیاتی نظام میں صوبائی حکومت کی نگرانی اور ان کے اختیارات بہت زیادہ ہیں جو مقامی حکومتوں کے بنیادی نظام کی روح کے خلاف ہیں۔ خود مختار مقامی حکومتیں ہی پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہیں۔ پاکستان بھر کے سابق کونسلرز مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے توانا آواز بلند کریں۔

ای پیپر دی نیشن