فیس بْک پر ہماری ایک ساتھی ہیں عظمیٰ گیلانی مگر یہ وہ والی عظمیٰ گیلانی نہیں جنھوں نے اپنی لازوال اداکاری کے بل بوتے پر شوبز کی دنیا میں اپنا نام کمایا ہے جس عظمی گیلانی کا راقم ذکر کرنے چلا ہے وہ سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹوں میں اتنی گہری بات کہہ جاتی ہیں کہ گماں ہوتا ہے کہ انکا کسی نہ کسی طور یا تو پروین شاکر یا پھر نوشی گیلانی یا پھر صائمہ آفتاب سے کوئی نہ کوئی رشتہ یا تعلق ضرور ہے۔ انکی ایک پوسٹ کے کچھ الفاظ یوں ہیں "اور کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جس میں پاؤں نہیں "دل" تھک جاتے ہیں" ذرا غور کیجئے کیا فلسفے کی بات کہہ دی اس خاتون نے۔ سمجھ نہیں آ رہا اسے کیا نام دوں "بیبسی" یا " سسکتی حسرتیں"
مجھے لگتا ہے دوسرے بیشمار پاکستانیوں کی طرح کسی نہ کسی طور میری اس بہن کے دل میں بھی اس کسک کی وجہ ناکامی کا وہ دوراہا ہے جہاں ستر سال گزرنے کے بعد ہم آج کھڑے ہیں بلکہ دیانتداری سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت جو جذبہ جو لگن جو اْمید تو تھی اج وہ بھی مفقود ہو چکی۔
یہ بات تو اس سفر کی ہے جو قیام پاکستان کے ساتھ شروع ہوا لیکن ایک سفر وہ بھی ہے جو ہمارے اباؤ اجداد نے اس مملکت خداداد کو حاصل کرنے کیلئے طے کیا۔ ایسا سفر جہاں مسافت تو صرف ایک لائن کو پار کرنے کی تھی لیکن وہ نو انچ کی ایک لائن ایک ایسے دشت میں بدل گئی جسکی پیاس لاکھوں انسانوں کے بہتے لہو کا دریا اور لاکھوں پاکباز بیبیوں کی حْرمت اور بلبلاتے بچوں کی چیخ و پکار بھی نہ بْجھا سکی۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ لاکھوں بوڑھے، جوانوں، خواتین اور بچوں کے اس سفاکانہ قتل جو صدی کا بدترین قتل تھا اسکے اتنے سنگلاخ سفر کی آبلہ پائی کے بعد 15 اگست 1947ء سے آزادی کے اگلے روز ہی ہم نے اپنے قبلے کا رْخ اپنی ترجیح مملکت پاکستان کی بجائے متروکہ وقف املاک کے حصول کی طرف موڑ دیا۔
دنیا کے کسی بھی نظام کو دیکھ لیں پولیٹیکل سائنس کی زبان میں وہاں اسٹیبلشمنٹ تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے سول بیوروکریسی، ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ۔ یہ الگ بات ہے کہ جمہوری سیٹ اپ میں عوام کے ووٹوں سے منتخب پارلیمان آئین کے تحت ان تینوں اداروں کو تجویز کردہ اختیارات تک محدود رہنے کا پابند بناتی ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس نظام جس ملک میں ان تینوں اداروں میں جب کبھی کوئی ایک اپنے تجویز کردہ اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو وہ نظام بادی النظر میں ڈکٹیٹرشپ کے زمرے میں چلا جاتا ہے جسکے نتیجے میں اس ملک کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں تاریخی حوالے سے پاکستان کی بدنصیبی کا دور بظاہر اس وقت شروع ہوتا ہے جب 1951ء میں ایک سازش کے تحت لیاقت علی خان کا قتل ہوتا ہے اور خواجہ ناظم الدین ایک سول بیوروکریٹ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بناتے ہیں۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اس دور میں سول بیوروکریسی کا حکومت پر اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ جمہوری نظام میں جو سیاسی قوت ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہونی چاہیئے وہ بالکل مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اور اسکی بے بسی اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے جب عدلیہ کے جسٹس منیر نے آگے بڑھکر سول بیوروکریسی کی بالادستی مسلط کرنے کیلئے مولوی تمیزالدین کیس میں ایک ایسا فیصلہ دے دیا جو تاقیامت شائد ہر انے والے دور میں پاکستان کی بدقسمتی میں ایک نیا باب رقم کرتا چلا جائے۔ 1951ء میں سول بیوروکریسی 1954ء میں عدلیہ اور پھر دیکھتے دیکھتے 1956ء میں ملٹری بیوروکریسی بھی اس ریس میں اسطرح شامل ہو گء کہ وہ دن اور اجکا دن۔ یہ الگ بات ہے کہ جو طاقتور تھے اْنھوں نے "حصہ بمطابق جْسہ" غلبہ حاصل کر لیا جو آج تک برقرار ہے اور شائد اسی وجہ سے اج جب اسٹیبلشمنٹ کا استعارہ استعمال کیا جاتا ہے تو لوگوں کا دھیان ملٹری بیوروکریسی کی طرف جاتا ہے حالانکہ راقم کو اس سے اختلاف ہے اور جہاں وہ اس میں سول بیوروکریسی اور عدلیہ کو برابر کا حصہ دار سمجھتا ہے وہیں پر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ 1951ء سے لیکر آج تک کے سفر کو قلمبند کرنے کیلئے ایک کالم نہیں ایک باب نہیں کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب کی ضرورت ہے جس میں بڑے بڑوں کے چہروں سے نقاب اْٹھتے ہیں۔
خیر بات آتی ہے کہ اس ستر سال کے تھکا دینے والے سفر کے بعد اس ملک کی عوام نے کچھ سال پہلے کسی ایک شخص کے منہ سے وہ کلمات سْنے جو انکی دل کی اواز تھے انہیں وہ سپنے وہ خواب سچ ہوتے نظر انے لگے جسکا تصور انہیں علامہ اقبال نے دیا تھا انہیں وہ قول سچ نظر انے لگے جنکی پاسداری اور عملداری کا قائداعظم نے اْن سے حلف لیا تھا۔ اْنھوں نے اس شخص کو اس لیئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ smile killing کا مالک تھا یا دیکھنے میں کوئی یونانی شہزادہ تھا اْنھوں نے اسے اس لئے ووٹ دیئے کہ وہ پاکستان کو اسکی شناخت دے سکے لیکن یقین جانیئے اس وقت پاکستان کے عوام کو کیا انکی شناخت مل گئی کیا اقبال کے خوابوں کو انکی تعبیر مل گئی کیا قائد کے اقوال سچ ہو گئے میرے پاس اسکا کوئی جواب نہیں میں تو ڈرتا ہوں اس دن سے جب ناامید ہو کر میری بہن کی طرح ملک کی اکثریتی عوام یہ کہہ اْٹھے کہ اس سفر میں اب پاؤں نہیں دل تھک چکے ہیں۔ بس اس تصور سے دل کانپ جاتا ہے۔