کبھی تو دلِ زار اُنہیں پیار آئے گا!

د وپہر کے یہی کوئی بارہ بجے کا وقت ہوگا میںاپنے کمرے میں ایک ماہنامہ کیلئے ملکی سیاسی حالات پرایک پھڑکتا ہوا کالم لکھنے کے لئے سوچ بچار کررہا تھاکہ ایک دم سے میری بیگم کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے ایک ہزار روپے کے نوٹ کے ساتھ ایک لسٹ پکڑاتے ہوئے بازار سے سودا سلف لانے کو کہا۔میں نے تھوڑی سی ناراضگی سے کہا’’ تمہیں پتہ نہیں یہ میرا کالم لکھنے کا وقت ہے‘‘ ۔بیگم کہنے لگی’’ ٹھیک ہے پھر آج دوپہر اور رات کا کھانا رہنے دیں اور آپ یہاں بیٹھ کر سکون سے کالم نہیںپورا اخبار لکھیں‘‘۔ میں نے کہا’’ کیا مطلب؟‘‘ ۔کہنے لگی’’ گھر میں آج دوپہر اور رات کا کھانا ا سی صورت بن سکتا ہے اگر آپ اس لسٹ کے مطابق سامان لا کر دیں گے‘‘۔ میں نے ایک لمحے کے لئے بطور کالم نگا راپنے قومی فرض اور دو وقت کی روٹی کا موازانہ کیا اور بیگم سے مزید کوئی سوال جواب کیے بغیر اپنی کالم نگاری کی دکان بند کر کے بازار جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ مگرجیسے ہی میں نے بازار جانے کے لئے قدم گھر سے باہر گلی میں نکالے۔گرمی کی شدت سے ہر طرف ایک ہُو کا عالم تھا۔ایک بار تو اس خوف سے میری جان نکل گئی کہ خدا نخواستہ اس سناٹے میں کہیں سے کوئی ڈاکو شاکوآ گیا تومجھے اُس کے ہاتھوں لٹنے سے کون بچائے گا۔لٹنے سے بھی زیادہ میرے لئے پریشان کن بات یہ تھی کہ میں اپنی بیگم کو کیسے یہ یقین دلائوں گا کہ ہزار روپیہ واقعی کسی ڈاکو نے لوٹا ہے۔ اسی طرح کے وسوسوں اور اندیشوں سے گھرا میں پیدل ہی بازار جارہا تھا کہ گلی کی نکڑ پر پتہ نہیں کہاں سے ایک ملنگ نما ہٹا کٹا شخص یکدم میرے سامنے آگیا ۔ملنگ کی آمد اتنی اچانک اور ہنگامی تھی کہ مجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور خوف سے میرا دل حلق میں آگیا۔ملنگ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے موٹے سے رنگین ڈنڈے کو ہوا میں لہراتے ہوئے تحکمانہ انداز میں کہا ’’ دے اللہ کے نام کا بابا پورے ایک ہزار کا پاپا‘‘ میں ملنگ کے جارحانہ انداز میں ڈنڈا گھمانے سے خوفزدہ ہوکر مزید سہم گیا۔ میری پتلی حالت دیکھ کرملنگ نے لہجے میں کچھ نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا ’’بول تیرے من کی مراد کیا ہے بچہ جو بولے گا وہ پائے گا‘‘ میرے حواس کچھ درست ہوئے تومجھے لگا یہ ملنگ واقعی کوئی پہنچا ہوا درویش ہے جسے یہ بھی پتہ ہے کہ میرے پاس ایک ہزار کا نوٹ ہے۔ میں نے سوچا ایک ہزار روپے میں من کی مراد کوئی مہنگا سودا نہیں ہے ۔اس دوران ایک لمحے کے لئے بیگم کی شدید ناراضگی اورغصے سے بھری شکل میرے ذہن میں آئی جسے میں نے فوراََ ہی یہ سوچ کر جھٹک دیا ’’جدوں ہووے گاحساب اودوں ویکھ لواں گے‘‘۔ میں نے جیب سے ہزار کا نوٹ نکال کر دونوں ہاتھوں سے نذرانے کے انداز میںملنگ کی طرف بڑھایا جسے اُس نے میرے ہاتھوں سے فوراََ ہی جھپٹ لیااور نوٹ کو سورج کی روشنی میںا ُلٹا پُلٹا کر چیک کرنے لگ گیا۔میں نے کہا’’ سائیں جی وہم نہ کریں اصلی نوٹ ہے سیدھا اپنی بیگم سے لے کے آرہا ہوں‘‘ ملنگ نے نوٹ کو اپنے کرتے کے نیچے سلوکے کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا’’ بول بچہ! تیرے من کی مراد کیا ہے؟‘‘میں نے ججھکتے ہوئے کہا’’ سائیں جی ! آپ سب جانتے ہیں‘‘ ملنگ تھوڑا گڑ بڑا گیا لیکن فوراََ سنبھل کر کہنے لگا’’ ملنگ سب جانتا ہے مگر تیرے منہ سے سننا چاہتا ہے‘‘ میں نے لجاتے ہوئے کہا’’ سائیں جی !میں ایک صحافی ہوں اور پچھلے کچھ عرصے سے ایک ماہنامہ میں کالم لکھ رہا ہوں مگر اب تک مجھے ’’وہاں‘‘ سے خیر سگالی کا کوئی پیغام نہیں آیا جہاں سے خیر سگالی کے پیغام کا ہمارے ملک میںتقریباََ ہر صحافی منتظر رہتا ہے۔ میرے دل میں اپنی قوم کے لئے بہت درد ہے میری خواہش ہے تھوڑے سے ماہانہ راشن پانی کے بدلے میں بھی اُس محبِ وطن ٹیم کا حصہ بن کر ملک اور قوم کی بے لوث خدمت کروں ۔میری بات سن کر ملنگ نے سلوکے سے ہزار کا نوٹ نکالا اور مجھے واپس کرتے ہوئے کہا’’ بچہ یہ پکڑ اپنے پیسے مجھے اندازہ ہے اس نوٹ کے بدلے گھر میں بیوی کے ہاتھوں تمہاری جو درگت بننی ہے‘‘ میں نے نوٹ پکڑتے ہوئے جھینپ کر کہا ’’ سائیں جی ! میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ ملنگ نے مسکراتے ہوئے کہا بچہ جس ماہنامہ میں تُو نے ابھی کالم لکھنا شروع کیا ہے وہاں میں نے اسی آس پر پورے پانچ سال کالم لکھے ہیں مگر مجھے ابھی تک وہاں سے کسی قسم کی خیر سگالی کا کوئی پیغام نہیں آیا ۔تجھے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں کالم لکھتے ہوئے اور تُو ابھی سے ا تنابے صبرا ہوگیا ہے۔ میری ایک بات اچھی طرح اپنے پلے باندھ لے کہ تُو جس منتر کا جاپ کر رہا ہے یہ کبھی کبھی اُلٹا بھی پڑ جاتا ہے لہذا اس حوالے سے تیزی دکھانے کی بجائے صبر سے اشاروں کنائیوں میں اُن کے حضور لگاتار اپنی گزارشات پیش کرتا رہ کبھی تو دلِ زار اُنہیں پیار آئے گا۔

ای پیپر دی نیشن