تھانہ کلچر، تبدیلی کے دعوے اور حقائق

تھانہ کلچر میں تبدیلی کی ’’گردان‘‘ کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں، کونسلر سے لے کر ، ایم پی اے، ایم این اے ، سینیٹر سمیت وزیراعظم و صدر مملکت تک تمام عہدیدار تھانہ کلچر میں تبدیلی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے ، کسی بھی عہدیدار کا تعلق حکومتی اتحاد سے ہو یا اپوزیشن۔ وہ تھانہ‘ کچہری کی سیاست تبدیل کرنے کا نہ صرف دعویٰ کرتا ہے بلکہ تھانہ کلچر پر عوامی جذبات سے کھیلتا ہے، دوسری طرف اعلیٰ پولیس افسر بھی حکومتی عہدیداروں کی ’’ہاں میں ہاں ملاتے‘‘ ہوئے ’’ہم بولیں زبان آپ کی، ہر جگہ ہر کہیں‘‘ کے مصداق عوام کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پولیس افسر‘ سیاسی رہنمائوں اور حکومتی عہدیداروں سے بھی دو قدم آگے ہوتے ہیں۔ ایس ایچ اوز، ایس ڈی پی اوز، ڈی پی اوز‘ آ ر پی اوز ، آئی جی سب کی ایک ہی گردان ہوتی ہے کہ تھانوں کو مجرموں کیلئے ’’جائے عبرت‘‘ شریف شہریوں ، سائلوں ، مظلوموں کیلئے ’’جائے پناہ‘‘ اور ’’جائے امن‘‘ بنا دینگے۔ تھانوں میں ٹائوٹوں کا داخلہ بند ہے ، سائلوں کے لئے دروازے ہر وقت کھلے ہیں، لیکن حقیقت میں معاملات الٹ ہوتے ہیں ، ٹائوٹوں ، جرائم پیشہ عناصر اور انکے سرپرستوں کو اجازت ہوتی ہے، وہ تھانے کے اندر ’’صاحب‘‘کے ساتھ کرسی جوڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ سائل ،شریف شہری یا دادرسی کیلئے آنیوالے کسی بھی مظلوم کو ’’سنتری‘‘ نے گیٹ پر روک رکھا ہوتا ہے۔ تھانہ کلچر کا پتہ تو آپ کو تھانے کے مین گیٹ پر کھڑے کانسٹیبل کے رویہ سے ہی چل جاتا ہے‘ باقی رہی سہی کسر کسی رپٹ یا ایف آئی آر کے اندراج تک مراحل کے دوران پوری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ایف آئی آر کا اندراج اتنا آسان نہیں بلکہ ’’جوئے شیر‘‘ لانے کے مترادف ہے ، سائل کو کئی کڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ ایف آئی آر کیلئے دی جانے والی درخواست کے مندرجات سے لے کر، جرائم کی نوعیت اور دفعات کے اطلاق میں آپ کو ایس ایچ او، تفتیشی اور منشی (محرر) کی قدم بقدم ’’رہنمائی‘‘ سے بھی مجبوراً مستفید ہونا پڑتا ہے۔ ورنہ ایف آئی آر کا اندراج مشکل ہی نہیں ، ناممکن ہو کر رہ جائے گا ، ایف آئی آر کے اندراج سے لیکر تفتیشی مراحل کے دوران کسی بھی مرحلہ پر ایس ایچ او کو ’’بائی پاس‘‘ کرنا سائل کیلئے ’’فائدہ مند‘‘ نہیں ہوتا۔ ایس ایچ او اتنا طاقتور اور بااثر ہوتا ہے کہ اگر وہ ایف آئی آر درج نہ کرنا چاہے تو ڈی پی او بے چارہ تو کیا ، آر پی او، آئی جی سمیت کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی ایس ایچ او کی مرضی کے برعکس کوئی کام نہیں کرا سکتے ، اگر کوئی سائل کسی اعلیٰ افسر کو ایس ایچ او کیخلاف شکایت کر دے تو پھر اسکی خیر نہیں ، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک ایس ایچ او اپنے ’’مداحوں‘‘ میں گھِرا بیٹھا تھا ، تھانے کا پورا عملہ بھی ایس ایچ او کے لئے داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہا تھا ، ایس ایچ او کسی سائل کا ڈی پی او کو کیا جانے والا ’’واٹس ایپ‘‘ پڑھ کر سنا رہا تھا اور پھر خود ہی تبصرہ کر رہا تھا کہ ’’ہوں‘ ہن ایف آئی آر درج کرا کے دکھائے۔ ایہنوں لگ پتہ جائے گا کہ ڈی پی او نوں کس طرح شکایت کری دی اے۔‘‘ سنگین نوعیت کے جرائم کی بروقت اور درست دفعات کے تحت ایف آئی آر درج نہ کرنا بھی تھانہ کلچر کا ہی حصہ اور ایس ایچ او کے ’’اختیارات لامتناہی‘‘ کا ہی مظہر ہوتا ہے۔ ایف آئی آر میں ڈکیتی کی بجائے چوری کی دفعات لگا دینا تو معمولی بات ہے‘ ساتھ ہی سائل کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ بھی جتائی جاتی ہے کہ ’’یار تینوں پھل کھان نال غرض اے یا پیڑ گنن نال‘ ڈکیتی دا مقدمہ کراکے توں کیڑا اینہاں نوں پھاہے لگوا دینا اے۔‘‘ ایسے ’’ناصحانہ کلمات‘‘ سے سائل بے چارہ راضی ’’برضا پولیس‘‘ ہو جاتا ہے۔ ایس ایچ او کی کوشش ہوتی ہے کہ اسکے تھانے کی حدود میں ہونے والی راہزنی‘ ڈکیتی کی وارداتوں کے مقدمات کم از کم درج ہوں۔ اسی طرح چوری کی وارداتیں (جن کے ملزم نامعلوم ہوں) بھی کم از کم رپورٹ ہوں تاکہ اسکے تھانے کی حدود میں ’’مثالی امن‘‘ کا تاثر ابھرے۔ بدقسمتی سے جب ایف آئی آر بروقت اور درست دفعات کے تحت درج نہیں ہوتی تو سائل کو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ سیشن کورٹ تک تو ایس ایچ او ’’چکر چلانے‘‘ میں اکثر و بیشتر کامیاب ہو ہی جاتا ہے‘ لیکن اگر سائل بھی کوئی انتہائی ’’ڈھیٹ‘‘ قسم کا ہو اور وہ زنجیر عدل ہلانے کیلئے ہائیکورٹ جا پہنچے تو پھر بعض اوقات ایس ایچ او کے ساتھ ڈی پی او کو بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ پولیس کی مرضی کے خلاف عدالتی احکامات پر درج ہونے والے مقدمات کا دوران تفتیش کسی حد تک ’’حلیہ‘‘ بگاڑنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے تاکہ سائل یا شکایت کنندہ کو قدم قدم پر احساس دلایا جائے کہ ’’توں عدالت جا کے چنگا نہیں کیتا۔‘‘ایسے حالات میں تھانہ کلچر میں تبدیلی کیسے ممکن ہے اور میرٹ کا واویلا کرنا بھی عبث ہے کیونکہ جب ایک انسپکٹر کے ہوتے ہوئے سب انسپکٹر کو ایس ایچ او لگائیں گے تو میرٹ کہاں سے آئے گا۔ویسے بھی یونیفارم تبدیل کرنے‘ تھانوں کی حدود کے تعین کیلئے لگے سائن بورڈز کا رنگ بدل دینے سے تو تھانہ کلچر میں تبدیلی نہیں آئے گی۔
بدلنی ہے تو مے بدلو‘ نظام مے کشی بدلو
وگرنہ ساغر ومینا کے بدلنے سے کیا ہوگا
تھانہ کلچر بدلنا ہے تو ڈی پی او تک سائل کی براہ راست رسائی آسان بنائیں۔ ایف آئی آر کا فوری اور درست دفعات کے تحت اندراج‘ میرٹ پر تفتیش یقینی بنائیں تو تھانہ کلچر میں تبدیلی ممکن ہے ورنہ محض دعوئوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔بقول حبیب جالب…؎
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...