چار سال قبل8جولائی 2016کو برہان مظفر وانی شہید کی شہادت کا دن تھا۔ چار سال قبل کشمیری نوجوان برہان وانی کو بھارتی فورسز نے ایک جھڑپ کے دوران شہید کر دیا ۔ برہان وانی شہید جنازے میں پہنچے لشکر طیبہ کے کمانڈر ابودجانہ نے وہ منظر پیش کیا کہ ہندوستان آج تک پچھتا رہا ہے کہ اس نے برہان وانی کو کیوں شہید کیا؟ برہاں مظفر وانی ایک سکول ٹیچر کا بیٹا ، ایک سکول ٹیچر کا بھائی تھا۔ اس کے بھائی کو ہندوستانی فوج گھر سے باہر بلا کر جنگل میں لے گئی مگر شام کو اس کی لاش گھر پہنچی۔ہندوستانی فوج مقبوضہ کشمیر میں جب چاہے جس کو چاہے گھر سے بلا لیتی ہے یا اٹھا لیتی ہے۔اس کو پابند سلاسل کرے یا شہید کر دے ان پر کوئی کیس نہیں بنتا بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ ان کو کشمیریوں کو قتل کرنے کا لائسنس تھما دیا گیا۔ لیکن بھارتی فوج کو شاید یہ معلوم نہیں تھا
ہر گھر سے وانی نکلے گا
تم کتنے وانی ماروگے
تاہم ابھی تک مقبوضہ کشمیر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بھی آزادی کی قیمت اپنے لہو سے ادا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ برہان وانی کی شہادت نے آزادی کشمیر میں نئی لہر دوڑا دی تھی او ر اب ریاض نائیکو اور جنید صحرائی کی شہادتوں نے تحریک آزادی کشمیر میں نئی جان ڈال دی ہے ۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور کشمیری آزادی کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کر چکے ہیںبے شک آزادی کشمیر نوشتہ دیوار ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کل بھی لہو لہو تھااور آج بھی لہو لہو ہے،جنت نظیر وادی کی مودی سرکار نے خصوصی حیثیت کو ختم کیا،اسی وقت سے مقبوضہ وادی کشمیر کو کشمیریوں کیلئے ایک جیل بنا دیا گیا ہے،بھارتی فورسز اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے نہتے کشمیریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے،مقبوضہ وادی کے حریت کانفرنس کے رہنما پابند سلاسل ہیں،آج مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون کا 282واں روز ہے،ساری دنیا بھارتی مظالم پر احتجاج بھی کر رہی ہے،مگر بھارتی حکومت پر اس کا ابھی تک کوئی اثر نظر نہیں رہا،اسی تناظر میں کشمیری نوجوان’’تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق‘‘بھارتی فورسز کا مقابلہ بھی کر تے نظر آتے ہیں۔ان ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے،مگر بھارتی حکومت ان نہتے کشمیر یو ں کو اپنا حق مانگنے پر خاک و خون میں نہلا تی چلی آرہی ہے،کشمیریوں کی نئی نسل جبر کیخلاف جب جب آواز اٹھاتی ہے ان کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے اسی طرح کی صورتحال چھ مئی کو بھی ہوئی جب 40 سالہ ریاض نائیکو اپنے ساتھی جْنید صحرائی کے ہمراہ اپنے آبائی گاوں بیگ پورہ اونتی پورہ میں بھارتی فورسز کے ساتھ آٹھ گھنٹے مقابلے کے دوران شہید ہو گئے۔ریاض نائیکو اونتی پورہ کے اْسی قصبے سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے برہان وانی اور ذاکر موسیٰ سمیت حزب المجاہدین کے کئی کمانڈرسامنے آئے اور شہید ہو گئے تھے۔ریاض نائیکو‘نے برہان وانی کی شہادت کے بعد ان کا مشن جاری رکھا، وادی کشمیر میں سرگرم حزب المجاہدین کو ازسرنو منظم کر نے میں بھی اہم کر دار ادا کیا تھا۔ریاض نائیکو جس کے بارے میں اسکے جاننے والوں کا کہنا تھا کہ وہ بہت کم گو لیکن جذباتی نوجوان تھا، بچپن سے ہی پینٹنگ کا شوق رکھتا تھا، کالج میںپڑھنے کے ساتھ ایک غیرسرکاری سکول میں ریاضی بھی پڑھاتے تھے۔ بھارتی فورسز نے 2010 ء میں اسے گرفتار کیا،دو سال کی قید کے بعد جب رہا ئی ملی تو وہ گھر میں صرف تین ہفتوں تک رہنے کے بعد6 جون 2012 کو روپوش ہوگئے۔2016 میں جب برہان وانی کی ایک جھڑپ میںشہادت ہوئی تو ریاض نائیکو نے سبزار
احمد کو کمانڈر تسلیم کرلیا۔سبزار کی بھی چند ماہ بعد شہادت ہو گئی تو اس کے بعدذاکر موسیٰ کمانڈر بن گیا، لیکن تھوڑے عرصے بعد ذاکر موسیٰ نے القاعدہ اور داعش کے نظریات اپنا کر حزب المجاہدین سے علیحدگی اختیار کرلی، جسکے بعد نائیکو کو خودسامنے آگیا۔اور یوں چھ مئی کی صبح سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں اپنے ساتھی کے ہمراہ جام شہادت نوش کر گیا۔ شہادت سے پہلے کئی بار ریاض نائیکو نے کئی ویڈیو پیغامات میں کہا تھا کہ حزب المجاہدین کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ محض کشمیر کی آزادی کیلئے سرگرم ہے۔