مالیاتی نظام نے کورونا کے دوران لچکداری کا مظاہرہ کیا 

Jul 08, 2021

کراچی(بزنس رپورٹر)بینک دولت پاکستان نے اپنی اہم سالانہ مطبوعات میں سے ایک ’مالی استحکام کا جائزہ‘ برائے 2020ء جاری کر دیا ہے۔ اس جائزے میں مالی شعبے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول بینکوں، غیر بینک مالی اداروں، مالی منڈیوں، غیر مالی کارپوریٹ اداروں اور مالی منڈی کے انفرا سٹرکچر کی کارکردگی اور خطرے کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔جائزے میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ 2020ء مالی شعبے کے لیے ایک ہمت آزما سال تھا کیونکہ اس سال کورونا کی وبا عظیم کساد بازاری  کے بعد سے اب تک کی شدید عالمی کساد بازاری کا سبب بنی۔ صحت کا یہ بحران ایک طرف دنیا بھر میں انسانی جانوں کے ایسے عظیم اتلاف کا سبب بنا جس کی کوئی مثال موجود نہیں، تو دوسری طرف معاشی سرگرمیاں بھی اس سے شدید متاثر ہوئیں۔ اس بحران کے منفی مضمرات کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں ملکی حکام اور مرکزی بینکوں نے غیر معمولی پیمانے پر اور معاون پالیسی اقدامات پر فوراً عمل درآمد کیا تاکہ مالی اور اقتصادی لچکداری کو محفوظ کیا جائے۔پاکستان کے معاملے میں کورونا وائرس کی لہروں کے اثرات نسبتاً کم رہے، مالی سال 20ئ￿  میں پیداواری خسارہ 0.47 فیصد رہا جو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ملکوں میں پست ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ فوری اور جامع پالیسی اقدامات کے جواب میں، انفیکشن کی شدت کم ہونے سے، اور نقل و حرکت پر پابندیاں نرم کرنے سے اقتصادی سرگرمیاں بحال ہوئیں چنانچہ اقتصادی دبائو  2020ء کی دوسری ششماہی اور اس کے بعد کے عرصے میں دھیما پڑ گیا۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی اقدامات میں یہ شامل تھے: پالیسی ریٹ میں تیز رفتار اور نمایاں کمی، روزگار، صحتِ عامّہ کی سہولتوں اور پیداوار کی معاونت کرنے والی نئی رعایتی ری فنانسنگ اسکیمیں، قرضوں کا التوا اور ری شیڈولنگ/ تنظیمِ نو، بینکوں کے تحفظِ سرمایہ کے بفر ۔ اس کے علاوہ دیگر متعدد اقدامات کیے گئے تاکہ صارفین کی سلامتی برقرار رکھتے ہوئے فرموں اور گھرانوں کے لیے بینکاری خدمات کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے ریلیف کے اقدامات کے علاوہ حکومت کی طرف سے مالیاتی تحرک  بھی فراہم کیا گیا، گھرانوں اور کاروباری اداروں کو ضروری معاونت دی گئی جس کے نتیجے میں معیشت بحال ہوئی جیسا کہ مالی سال 21ء   کی تخمینہ شدہ جی ڈی پی نمو 3.94 فیصد سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’مالی استحکام کا جائزہ‘ میں یہ محسوس کیا گیا کہ پاکستان کے مالی نظام نے لچک کا مظاہرہ کیا اور ہمت ا?زما حالات میں اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس مالی نظام کے اثاثے 2020ء  میں 14.08 فیصد کی شرح سے بڑھے جبکہ گذشتہ سال یہ شرح 11.61 فیصد رہی تھی۔ اس نمو میں سب سے بڑا حصہ بینکاری شعبے کا رہا جو مالی شعبے کا سب سے بڑا جز ہے۔ مالی منڈیوں نے تغیر پذیری کا قلیل سا عرصہ گذارنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے بروقت اقدامات کی بنا پر سال کی دوسری ششماہی میں دوبارہ اعتماد حاصل کر لیا۔بینکاری شعبے نے نمایاں کارکردگی اور لچک کا مظاہرہ کیا۔ ڈپازٹس، جو فنڈنگ کا اہم ذریعہ ہیں، میں نمایاں نمو کے بل پرشعبے کیاثاثہ جات میں  14.24 فیصد کی مضبوط نمو ہوئی۔ اثاثوں کے آمیزے میں ، سرکاری تمسکات میں کی جانے والی سرمایہ کاری نجی شعبے کے قرضوں سے بڑھ گئی۔ مؤخر الذّکر کی نمو کی رفتار وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والی سست روی اور قرضے کی کمزور طلب کی وجہ سے دب گئی۔ 2020ء کی پہلی ششماہی کے دوران اس شعبے کو خطر ہ قرض میں  معتدل اضافے کا سامنا کرنا پڑا ، جو دیگر چیزوں کے علاوہ اسٹیٹ بینک  کی طرف سے ریلیف کے ضوابطی اقدامات کے نتیجے میں دوسری ششماہی میں کم ہوگیا۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشی سرگرمی کی بحالی کے ساتھ ، کارپوریٹ سیکٹر کی کارکردگی اور ادائیگی کی استعداد میں بہتری آئی جس نے خطرہ قرض کے خدشات کو مزید کم کردیا۔ پست  سودی و انتظامی اخراجات کے ساتھ ساتھ تمسکات کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کی وجہ سے بینکوں کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوا۔ مستحکم  آمدنی سے شعبہ  بینکاری کی ادائیگی قرض کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ، کیونکہ2020ء کے اختتام پر شرحِ کفایتِ سرمایہ 156 بیسس پوائنٹس  بڑھ کر 18.56 فیصد ہو گئی جو 11.5 فیصد کے کم از کم ضوابطی تقاضے سے کافی زیادہ ہے۔  شعبہ بینکاری کے تناؤ کی جانچ کے نتائج بھی ظاہر کرتے ہیں کہ منفی معاشی حالات میں بھی ، شعبہ بینکاری  تین سال بعد کے حالات میں ممکنہ طور پر  لچک برقرار رکھ سکتا ہے۔’مالی استحکام کا جائزہ‘اسلامی بینکاری اداروںکی کارکردگی کو قابل ذکر بتاتا ہے کیونکہ قرضوں میں مناسب نمو  اور سرمایہ کاریوں میں اضافے کی وجہ سے ان کے اثاثہ جات میں2020ئ￿ کے دوران 30 فیصد اضافہ ہوا۔ حوصلہ افزا طور پر ، شریعت سے ہم آہنگ سرمایہ کاری کے اضافی مواقع کی بدولت اسلامی بینکاری اداروں کو اپنا  خاکہہ سیالیت بہتر بنانے میں مدد ملی۔ اثاثوں کے معیار کے اظہاریوں میں بھی بہتری آئی ، جبکہ بھرپور نفعآوری نے بینکاری شعبے کی مجموعی آمدنی کو بڑھا دیا۔جائزہ میں یہ بھی اجاگر کیا گیا کہ   اثاثہ جاتی انتظام کے زمرے میں بھرپور نمو کی وجہ سے غیر بینک مالی اداروں نے مجموعی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، گو کہ مالکاری  کے کاروبار سے منسلک  اداروں کو دشوار معاشی حالات کی وجہ سے اثاثہ جات کے معیار میں تخفیف اور بگاڑ  کا سامنا کرنا پڑا۔وبائی مرض کی وجہ سے نافذ ہونے والی عملی رکاوٹوں کے باوجود ، مالی منڈیوں کے انفراسٹرکچرز لچکدار رہے اور بلا تعطل مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ خاص طور پر ، ڈجیٹل مالی خدمات کے استعمال کے ضمن میں صارفین کی بڑھتی ہوئی ترجیح اور اسٹیٹ بینک کے پالیسی اقدامات نے ای بینکاری لین دین کو کافی تقویت دی۔ مزید برآں ، صنعت نے وبائی مرض کے پیش کردہ منفرد موقع سے فائدہ اٹھایا،  کیونکہ اس نے محفوظ اور آسان انداز میں خدمات کی فراہمی کے لیے ڈجیٹائزیشن کی رفتار کو تیز کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ،  اسٹیٹ بینک نے قومی نظامِ ادائیگی کی حکمت عملی پر عمل درآمد کی سمت اہم قدم اٹھاتے ہوئے ، ریٹیل  لین دین کا فوری ادائیگی کا نظام’’راست‘‘ شروع کیا۔ 

مزیدخبریں