تحریکِ پاکستان۔۔۔ جسٹس ارشاد خاں کی زبانی

Jul 08, 2021

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) ارشاد حسن خان صاحب کہتے ہیں کہ اگست1947ء کے مہینے میں ہم دہلی سے کراچی پہنچے، یہ سخت مشکل کا وقت تھا، میں اپنے بڑے بھائی اورنگ زیب خاں صاحب کے ہمراہ تھا، ٹرین سے ہم نے سفر کیا، ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ دہلی سے پاکستان آنے والی پہلی ٹرین ہماری تھی جو فوج کے پہرے میں دہلی سے کراچی پہنچی۔ اس دوران جہاں جہاں گاڑی رکتی تھی، ہندو ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن ہمارے سارے کمپارٹمنٹ اندر سے سیل تھے اور فوج کا پہرہ ہونے کی وجہ سے الحمدُللہ ہمیں ذاتی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس سٹیشن پر گاڑی رکتی تھی، وہاں خون کے نشانات پڑے ہوئے نظر آتے تھے۔ چونکہ میں بچہ تھا نہ سمجھنے والے انداز میں بھائی سے پوچھتا کہ کیا یہاں ہولی کھیلی جا رہی ہے؟ ہر جگہ ہولی کے رنگ ہیں، کیا یہ ہولی کا میدان ہے؟ وہ جواب دیتے، نہیں بیٹا یہ ہولی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے خون کے نشان ہیں۔ ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں آتی تھیں۔ میں نے خود دیکھا کہ وہاں عورتیں بے یار و مددگار ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں بھائی سے پوچھتا، یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ کوئی کھیل کھیل رہے ہیں یا کوئی فلم چل رہی ہے؟
اورنگ زیب خاں اور ان کی فیملی کے ساتھ جب ہم کراچی پہنچے تو میں سخت بخار میں تپ رہا تھا، کیمپ میں ہمیں سر چھپانے کی جگہ ملی… نیا شہر، بیماری، یہ پریشان کن صورتحال تھی۔ انتہائی نامساعد حالات… بھائی جان اورنگ زیب خان دہلی میں فارن آفس میں ملازم تھے، کراچی پہنچنے کے بعد کچھ دن ہم کیمپ میں رہے، ہجرت کے وقت ہم سمیت سب لوگوں کا بہت برا حال تھا۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا، خاندان کے لوگ بچھڑ گئے تھے۔ لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے تھے، ہر طرف آہ و بکا کا منظر تھا، جیسے قیامت صغریٰ برپا ہو گئی ہو۔
اورنگ زیب خان مسلم لیگ کے پُر جوش اور فعال ورکر تھے ۔ وہ تحریک پاکستان کے ہر اول دستے میں شامل تھے بلکہ تحریک ِ پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کار کُن بھی تھے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا مسلم لیگ تھا، سیاست کے کارزار کے ایسے مجاہد جو نظریے کی بنیاد پر تن من دھن نچھاور کر دیتا ہے۔ کراچی کے مہتہ ہائوس میں فارن آفس میں ان کی ملازمت تھی لیکن ان کی دلچسپی سیاست میں زیادہ تھی۔ فارن آفس والوں نے انہیں رہائش کے لیے کوارٹر بھی الاٹ کیا مگر کچھ عرصہ بعد ہی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لاہور چلے آئے۔
کراچی سے لاہور
قیامِ پاکستان کے بعد کراچی سے ہم لاہور منتقل ہو گئے، پنجاب اسمبلی کے پہلو میں… نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ لوگوں کا جذبہ حب الوطنی اور یک جہتی عروج پر تھی، وطن کی زمین ان کے لیے جنت کی مانند تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ خواب بکھرنے لگے، قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ایوانوں میں اقتدار کا کھیل شروع ہو گیا۔ جس مقصد کے لیے وطن بنا تھا، اسے پس پشت ڈال دیا گیا، اقربا پروری، کرپشن، لوٹ مار اور موقع پرستی کا دور شروع ہوا، میرے بھائی اورنگ زیب خان نظریاتی آدمی تھے۔ وہ اسلامی جمہوری پاکستان کا خواب لے کر یہاں آئے تھے اس لیے ان کا جوش ماند پڑ گیا، اور وہ سیاست سے الگ ہو کر فرنیچر کی ایک دکان بنا کر بیٹھ گئے۔ لاہور میں ریجنٹ سینما کے سامنے فرنیچر مارکیٹ میں ان کی دکان تھی، ریکی برادرز کے نام سے۔ انہوں نے مجھے بھی اس دکان پر لا بٹھایا مگر میں کچھ اور کرنا چاہتا تھا، اپنی تعلیم بھی مکمل کرنا تھی اس لیے چند ہی دنوں بعد میں نے فرنیچر کی دکان کو خیرباد کہہ دیا، البتہ میرے دوسرے بھائی ظہور صاحب وہاں موجود اور، اورنگ زیب صاحب کے ساتھ شریک کار رہے۔
لیاقت علی خان(مرحوم ) کی لاہور میں آمد
1951ء میں لیاقت علی خاں لاہور آئے۔ میں بھی ان کے استقبال کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچا ہوا تھا۔ لیاقت علی خاں وزیراعظم بھی تھے اور مسلم لیگ کے صدر بھی… لاہور ریلوے اسٹیشن پر صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حیثیت سے لاہور آئے ہیں، وزیراعظم یا صدرِ مسلم لیگ؟ انہوں نے جواب دیا، جو میری حیثیت ہے اسی میں آیا ہوں۔
لیاقت علی خاں محب وطن تھے۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ مل کر شب و روز قوم کی خدمت کی۔ لاہور کے ایک جلسہ جس میں، میں بھی ایک سامع کے طور پر موجود تھا انہوں نے ایک تقریر کی جو آج بھی میرے حافظہ میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا تھا:
’’آج پاکستان کو بنے ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصۂ قلیل میں ہمیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا آپ ان سے بخوبی واقف ہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر پاکستان کی عزت کی خاطر، پاکستان کی ناموس کی خاطر، مسلمانوں کو خون کا ایک قطرہ بھی بہانا پڑا تو وہ خون لیاقت علی خاں کا ہو گا۔‘‘
انہوں نے جو کہا اس کو سچ کر دکھایا۔ اس وطن کی خاطر انہوں نے اپنے خون کا آخری قطرہ چھوڑ، جان ہی قربان کردی۔ وہ عزم و ہمت، جرأت، وفا اور قربانی کا نشان بن کر ’’شہید ملت‘‘ کہلائے۔ آج بھی قوم ان کی شہادت کو یاد کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ موت تو ہر ایک کو آنی ہے، کیا ایسی موت قابل تقلید اور قابل مثال نہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائے۔!

مزیدخبریں