دلیپ کمار بچپن سے 5 وقت کے نمازی، تمام عمر پشاور کو بھول نہ پائے

Jul 08, 2021

لاہور (خالد بہزاد ہاشمی) یوسف خان المعروف دلیپ کمار کا تعلق ایک خالصتاً راسخ العقیدہ مذہبی اور روایت پسند گھرانے سے تھا۔ جہاں مذہبی شعائر کی سختی سے پابندی کی جاتی۔ والد محمد سرور خان اور دادا حاجی محمد خان کی اسی پرورش کے نتیجہ میں وہ بچپن سے پانچ وقت کی نماز کے پابند ہو گئے تھے۔ ان کے والد محمد سرور خان جب یوسف خان ابھی بچہ تھے انہیں تونسہ شریف میں آسودۂ خواب برصغیر کی معروف بزرگ ہستی حضرت شاہ سلیمان تونسوی کے مزار اقدس پر اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ وہاں سرور خان نے حسبِ معمول عقیدت و احترام کے ساتھ فاتحہ، نذر نیاز اور پھول چڑھائے اس دوران انہوں نے مزار مبارک سے صاحب مزار کی آواز سُنی تھی جو فرما رہے تھے کہ ’’سرور خان ! تمہارا یہ بچہ ایک عظیم انسان بنے گا‘‘ جب وہ پانچ سال کے تھے تو ان کے دروازے پر جذباتی گیت گانے والے ایک فقیر نے انہیں دیکھ کر انکی دادی اماں سے کہا تھا کہ یہ بچہ عظیم شہرت اور بینظیر کامیابیاں سمیٹنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس لڑکے کی حفاظت اور نگہداشت کریں۔ نظربد سے بچائیں یہ بڑھاپے میں بھی خوبصورت ہوگا۔ دلیپ کمار عام طور پر صبح نماز فجر سے قبل چار بچے درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء پر خاموشی سے حاضری دیتے۔ دلیپ کمار دہلی میں آسودہ خواب سلسلہ چشتیہ کے دوسرے ماہ تاباں اور حضرت خواجہ غریب نواز کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ پر بھی حاضری دیتے۔ ان کا دل بھارتی مسلمانوں کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا اور متعصبانہ سلوک پر دکھی رہتا جبکہ انہیں خود بھی بھارتی انتہا پسندوں کے تعصب کا سامنا رہتا اور ان کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا۔ ممبئی کے مسلم کش فسادات اور دیگر پُرتشدد واقعات کے متاثرہ مسلمان انکی مدد کے لئے ان کے گھر کا رُخ کرتے اور وہ انکی ہر ممکنہ مدد کرتے۔ شاعری اور ادب کا شوق یوسف خان کو اپنے دادا حاجی محمد خان سے ورثے میں ملا تھا جو گھر میں فارسی بولا کرتے اور ان کے پاس فارسی کتب کا بڑا ذخیرہ تھا۔ انکی دادی اماں انہیں دلچسپ کہانیاں سناتیں وہ فارسی شعراء کی غزلیں شوق سے سنتیں۔ داستان گوئی کا یہی شعور انہیں قصہ خوانی بازار لے جاتا یہاں سنی ہوئی دلچسپ داستانیں آواز کا اتار چڑھاؤ اور زیر و بم مستقبل میں انڈین سینما پر ان کے کام آئے۔ اشعار پر اتنی دسترس ہوگئی کہ وہ دوران گفتگو برمحل اشعارسنا کر محفل لوٹ لیتے۔ لفظوں کا استعمال کرنا خوب جانتے تھے۔ کلاسیکل شعراء میں غالب ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ جب معروف پاکستانی محقق، دانشور ڈاکٹر انیس ناگی نے اپنی کتاب ’’غالب کا مقدمہ پنشن‘‘ شائع کیا تو فوراً چونک اٹھے یہ پنجاب آرکائیو مقبرہ انارکلی (سول سیکرٹریٹ) کے تہہ خانوں سے ملنے والے غالب کے خطوط کے حوالے سے تھی۔ دلیپ کمار نے یہ کتاب لاہور سے ممبئی جانے والے معروف شاعر، دانشور پروفیسر عقیل روبی سے منگوائی تھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انیس ناگی نے ’’نوائے وقت‘‘ کو تفصیلات بھی بتائی تھیں۔ فیض احمد فیض کے بھی بہت بڑے مداح تھے۔  وہ تمام عمر پشاور شہر خانی بازار محلہ خدا آباد کی یادوں کے سحر سے باہر نہ نکل سکے اور پاکستان سے آنے والے مہمانوں اور دوستوں سے اس کا تذکرہ کرتے ہندکو (پنجابی) میں گفتگو کرتے بے حد خوش دکھائی دیتے لیکن ایسے مواقع انہیں کم ہی ملتے۔ جب تک اردو زبان زندہ ہے یوسف خان کا معتبر حوالہ بطور سند اور مثال پیش کیا جاتا رہے گا۔

مزیدخبریں