عنبرین فاطمہ
’’عبدالستار ایدھی‘‘ جن کا کام ہی انکا تعارف ہے ان کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی سے’’ نوائے وقت‘‘ نے خصوصی گفتگو کی انہوں نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تو آج بھی یقین نہیں آتا کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں صبح اٹھتی ہوں تو میری نظر یں انہیں کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں ۔ ان کی آواز آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے ،ان کے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ہے لیکن روشنی نہیں ہے،میرا تو بس ساتھی چھوٹ گیا ہے ۔ان کی آواز میں ایک رعب اور دبدبہ تھا ایک آواز لگاتے تھے تو سب ایکدم الرٹ ہوجاتے تھے ۔آخری دنوں میں جب ان کی طبیعت خراب تھی تو انہیں ہسپتال میں منتقل کرنا پڑا میں وہاں جاتی ان کے پاس بیٹھتی تو میرا ہاتھ زور سے تھام لیا کرتے تھے اور اسی طرح سے سو جاتے تھے ان کی آنکھ لگتی تو میں اپنا ہاتھ چھڑواتی تھی،مجھے کہا کرتے تھے کہ اللہ اگر ہم سے کوئی کام نہ لینا چاہے تو کیسے کر سکتے ہیں ،امیرے بعد اگر اللہ کو منظور ہوا تو وہ میرے بچوں اور تم سے کام ضرورلے گا۔میں نے پچاس سالہ شادی کے تعلق میں ایسا کبھی نہیں سنا کہ وہ کسی کو گالی دے رہے ہوں انہیں اگر کسی بات پہ بہت غصہ آجا یا کرتا تھا تو خاموشی اختیار کر لیا کرتے تھے۔کسی کو پریشان دیکھتے تو خود بہت زیادہ پریشان ہو جاتے تھے وہ اکثر اپنے ساتھ ہیروئین اور چرس کے عادی افراد کو بٹھا لیا کرتے تھے آفس میںان کی کونسلنگ کرنے کی کوشش کرتے تھے اور مجھے کہا کرتے تھے کہ ان کے لئے کوئی کپڑے لیکر آئو ان کو کپڑے اور پیسے دیتے کھانا کھلاتے اور انہیں سمجھاتے کہ زندگی کسی مقصد کے تحت گزارنی چاہیے ۔ایدھی مجھے کہا کرتے تھے کہ بلقیس ہمارے پاس جو لوگ آتے ہیں وہ حالات اور زندگی کے ستائے لوگ ہوتے ہیں کبھی ان کے ساتھ اکٹر کر بات نہ کرنا میں ان سے کہا کرتی تھی کہ آپ نے جب مجھے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا تو کیوں ایسی بات کرتے ہیں تو کہا کرتے تھے کہ میںیاددہانی کرواتا رہتا ہوں کہ دوسروں کا دل ہماری وجہ سے نہ دُکھے ان کو ہماری کسی بات سے تکلیف نہ ہو۔میں نے بطور بیوی اور بطور انسان ایدھی سے بہت کچھ سیکھا اور ان کے بعد بھی ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہوں دن رات انسانیت کی خدمت کررہی ہوں لیکن ایدھی صاحب کی کمی پوری نہیں ہوتی نہ ہی ہوگی میں تو اپنے گھر نہیں جاتی انکے بعد میں تو آفس میںہی رہتی ہوں۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایدھی نے کوئی کام کرنا ہوتا تھا تو وہ مجھ سے مشورہ کرتے تھے اور اچھے ماحول میں ہم کسی بھی مسئلے یا کام کو ڈسکس کیا کرتے تھے ،ہم میاں بیوی نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے کے دوست تھے اس دوستی میں لڑائی اور محبت دونوں ساتھ ساتھ چلتا تھا ۔ جب ان سے شادی ہوئی تو پہلے دن سے یہی دیکھا کہ انہوں نے بھی کام کرنا ہے اور میں نے بھی ،گھریلو زندگی ہماری تھی ہی کہاں میری ماں میرے بچے سنبھالا کرتی تھیں اور میں ایدھی کا ساتھ دینے کیلئے دن رات ان کے ساتھ رہا کرتی تھی ۔میں نے بہت بار کہا ایدھی کو کہ مجھے گھر لیکر دیں میرا بھی دل کرتا ہے کہ ہمارا ایک اپنا گھر ہو اسے میں سجائوں سنواروں ، تو کہا کرتے تھے کہ نہیں تمہاری ماں کا گھر ہے نا بچے اور ہم وہاں رہ رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے نیا گھر لینے کا۔میرے بچے میری ماں کے گھر پیدا ہوئے ان کی شادیاں بھی وہیں ہوئیں اتنی ساد ہ طبیعت تھی ان کی کہ ان کو یہ بھی خواہش نہیں تھی کہ ہمارے پاس بھی گھر ہو ۔
ایک سوال کے جواب میں بلقیس ایدھی نے کہا کہ میں کبھی اگر ناراضگی کا اظہار کرتی تھی تو وہ آگے سے ری ایکشن نہیں دیا کرتے تھے بس خاموش ہو جاتے تھے اور کھانا چھوڑ دیتے تھے میں جب یہ محسوس کرتی تھی کہ وہ بھوکے ہیں تو ان کے پاس جاتی تھی اور کہتی تھی کھانا کھا لیں
بس اتنا کہنے کی دیر ہوتی تھی کہ وہ مان جاتے تھے اور کہا کرتے تھے لگائو دسترخوان اور وہ یہ بھی نہیں جتاتے تھے کہ میں ان سے ناراض ہوئی تھی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ جو بات ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے دوبارہ نہ ہو۔
ٹی وی اور فلمیں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے میں ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی تھی تو وہ کہا کرتے تھے بیٹھ جائو اس شیطان کو لیکر۔وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ میں فلم دیکھوں سینما میں جا کر ،اب دل تو بہت کرتا تھا اس لئے ہم پانچ سات لڑکیاں مل کر ٹکٹیںلے لیتی تھیں اب جب فلم دیکھنے کا وقت آتا تھا تو میں کہہ دیا کرتی تھی کہ فلاں دوست کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے وہاںجانا ہے یوں سینما جا کر فلم دیکھ کر واپس آجاتے تھے ہاںاگر ایک بار بھی پکڑے جاتے ہم سب تو یقینا ایدھی کا غصہ دیکھنے والا ہوتا ۔
میری جب شادی ہوئی تھی اس وقت میری عمر کافی چھوٹی تھی مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھامجھے یاد ہے کہ کبھی کھانے میںنمک تیز ہوجاتا تھا کبھی مرچ لیکن مجھے کبھی بھی ایدھی سے ڈانٹ نہیں پڑی تھی کہ یہ کیابنا دیا وہ سبحان اللہ کہہ کر کہا کرتے تھے کہ بہت اچھا کھانا بنا ہے وہ میری اس طرح سے حوصلہ افزائی کرتے تھے لیکن مجھے پتہ ہوتا تھا کہ کھانا بے ذائقہ ہے۔ہم میمن لوگ ہیں ہم میں رواج ہے کہ جب لڑکی شادی کے بعد حاملہ ہو تو اسکو اسکے گھر ماں کے پاس بھجوا دیا جاتا ہے تاکہ وہ دیکھ بھال کریں مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار حاملہ ہوئی تو رہتی تو امی کے ساتھ ہی تھی لیکن ایدھی نے بالکل نہیں کہا کہ تمہاری دوا کے پیسے تمہاری والدہ دیں بلکہ مجھے دوائی کے پیسے دیا کرتے تھے کہا کرتے تھے کہ امی سے پیسے نہیں لینا میں ان کے اس عمل سے بہت متاثر ہوئی ورنہ تو اپنی خالائوں کو دیکھ رکھا تھا کہ ان کی ساس ان کو اس موقع پر گھر سے نکال دیتی تھیں کہ جائو اپنی والدہ کے گھر، بچہ دنیا میںا ٓئے تو واپس آجانا ۔
میری ماں کہا کرتی تھی کہ ’’کسی کو اپنا لو یا کسی کے بن جائو‘‘ میں نے بس ایدھی کو اپنا لیا۔
عام میاں بیوی کی طرح ہم شادی کے بعد کہیں نہیں گئے شروع کے پچیس تیس سال تو اسی طرح سے گزرے،کہنا تو نہیں چاہیے لیکن میت یا مریض کو چھوڑنے جانا ہی ہماری تفریح ہوا کرتی تھی بس یہی وہ وقت ہوا کرتا جب ہم اکٹھے ہوا کرتے تھے ۔1966میںہماری شادی ہوئی بس آخری وقت تک ہم دونوں نے مل کر کام کیا ہماری گھریلو زندگی عام میاں بیوی کی طرح نہیں تھی۔
ماضی کے جھروکوں میںجھانکتے ہوئے بلقیس ایدھی نے کہا کہ میں ایدھی کے نرسنگ ہوم میںکام کیا کرتی تھی وہاں ایدھی اور ہیڈ نرس کی اچھی سلام دعا تھی ہم سب لڑکیوں کو وہاں لگتا تھا کہ اسی خاتون کیساتھ ایدھی کی شادی ہوگی ایدھی نے اسے شادی کا پوچھا بھی لیکن اس نے داڑھی ہونے کی وجہ سے انکار کردیا۔اسی طرح انہوں نے اور لڑکیوں سے بھی پوچھا لیکن ہر طرف سے داڑھی ہونے کی وجہ سے انکار ہوا مجھے ایدھی نے براہ راست نہیں پوچھا میری خالہ سے کہا کہ بلقیس سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے ہاں کر دی مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے بھی ہاں کر دی کیونکہ میںنے اردگرد پریشان حال عورتوں کو دیکھ رکھا تھا مجھے لگا کہ سب کچھ تو نہیں ملتا نا، لہذا ایک قدر کرنے والا انسان مل رہا
ہے تو مجھے شادی کرنی چاہیے ۔ہمارا نکاح دو چار دن میں ہو گیا تھا ایدھی مجھے مسجد میں لیکر گئے اور نکاح پڑھا گیا میرا حق مہر دو سو روپے رکھا گیا جو کہ انہوں نے اسی وقت ادا کر دیا ۔عام میاں بیوی کی طرح گھریلو زندگی نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان رہتی تھی سوچتی رہتی تھی کہ
میری گھریلو زندگی ہی نہیں ہے ہماری زندگی میںصرف کام ہے لیکن میں نے اپنے میاں کے کام کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ اسکا ساتھ دیا اور کبھی اسکو اس وجہ سے کہ ہمیں وقت نہیں دے پاتا چھوڑنے کا سوچا بھی نہیں ۔
ایدھی کی طبیعت کافی سادہ تھی وہ کھانے پینے کے بہت زیادہ شوقین نہیں تھے صبح وہ چائے کے ساتھ روٹی بھگو کر کھا لیتے تھے اسی طرح دوپہر کو سالن میں بھگو کر کھاتے تھے روٹی، اسی طرح سے رات کی بھی روٹین تھی اور ماشاء اللہ بہت صحت مند تھے وہ بات کرتے تھے تو ان کا چہرہ ناک کان ایکدم لال ہوجایا کرتا تھا ۔مجھے تو کبھی انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ یہ نہ پہنو وہ بھی نہ پہنو بس یہ ضرور کہا کرتے تھے کہ مجھے سفید اور نیلا رنگ پسند ہے تو میں کوشش کرتی تھی کہ یہ دو رنگ ضرور پہنوں۔
ایدھی کام میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا وقت کم میسر آتھا تھا پھر میرے بچے سکول کے چھٹی کے روز ایدھی کے آفس چلے جایا کرتے تھے کہ بابا چٹائی بچھائیں ہم یہاں سب مل کر کھانا کھائیں گے ۔
مجھے حج کرنے کا بہت شوق تھا، دعائیں کیا کرتی تھی کہ اللہ میاں حج پر بلوا لے ہمیں بھی 1972میں حج کرنے کا موقع میسر آیا وہ بھی بائی روڈ، اپنی پرانی گاڑی پر تو مجھے ایدھی نے کہا کہ بلقیس زیادہ کپڑے ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے حج کرنا مقصد ہے بس اس کو مد نظر رکھو اور سادگی اپنائو تو میں نے ایسا ہی کیا۔
بلقیس ایدھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایدھی کا ماننا تھا کہ ان کا دوسری شادی کرنا خود کے ساتھ ظلم تھا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا ان کی دوسری بیوی میرے ساتھ سولہ برس رہی اس کے بعد وہ گھر سے پیسہ لیکر چلی گئی ،ایدھی نے چار سال تک کچھ نہیں بولا خاموشی اختیار کی اور اس کے بعد صحافیوں کو بلوایا میں نے کہا کہ کیوں بلوا رہے کہنے لگے ان کو بتائوں گا کہ یہ عورت میری بیوی تھی اور اس نے ایسا کیا ہے تاکہ یہ کسی کو مزید دھوکہ نہ دے سکے میں نے کہا کہ اسکو تو کوئی نہیںجانتا آپ کو جانتے ہیں نہ کریں ایسا تو کہنے لگے نہیںکہ ایسی عورت کی اصلیت سب کے سامنے آنی چاہیے تاکہ کل کو کسی اور کا نقصان نہ ہو۔
بلقیس ایدھی کہتی ہیں ایدھی کے شلوار قمیض پہننے اور داڑھی سے انہیں کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا کہتی ہیں کہ میں چاہتی بھی تو کہہ نہیںسکتی تھی کیونکہ جس بات کو کرنے کا فائدہ نہ ہو اسکو کرکے بلاوجہ تعلق میں خرابی کیا پیدا کرنی ۔
ایدھی ساری رات نہیں سوتے تھے وہ تین تین فون اپنے پاس رکھتے تھے زرا فون کی گھنٹی بجتی و ہ اٹھا لیا کرتے تھے کہا کرتے تھے کہ رات کو
ریسپیشن پر بیٹھے لوگوں نے ایک بھی فون مس کر دیا تو پتہ نہیں کسی بھی ضرورت مند پر کیا بیتے گی، رات کو اکثر لوگوں کا کفن یا گاڑی کیلئے فون آیا کرتا تھا پھر جب وائرلیس آیا تو وہ بھی اپنے پاس رکھ کر سوتے تاکہ کسی کو اگر رات کے کسی پہر پریشانی آجائے تو وہ اس کے کام آسکیں ۔ میر ی عادت ہے کہ ایک بار سوتی اٹھ جائوں تو دوبارہ نیند نہیں آتی ایدھی رات کو نیند سے دس بار بھی بیدار ہوتے تو بعد میں فورا ًسو بھی جاتے تھے بلکہ خراٹے لے رہے ہوتے تھے ۔
بلقیس ایدھی کہتی ہیں کہ ایدھی نے جب بھی الیکشن لڑنا چاہا میں نے ان کو یہی کہا کہ رہنے دیں وہ کہا کرتے تھے کہ لوگ مجھے رات کو دو بجے اٹھا کر مجھ سے اپنے کام کرواتے ہیں اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کو اس کے بدلے میں جنت ملے گی ،دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے الیکشن میںکتنی عزت بخشتے ہیں ،کہتے تھے کہ سیٹ جیت کر ریزائن کر دوں گا اللہ مجھ سے جو کام لے رہا ہے میں اسی میں خوش ہوں لیکن میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ کتنی عزت دیتے ہیں ۔
ایدھی کی ان کے کام کی وجہ سے جان پہچان ہر دور کے سیاستدان سے رہی ہے لیکن انہوں نے کبھی ان سے کوئی نہ عہدہ لیا نہ پیسے ،کہا کرتے تھے کہ بلقیس اگر ہم نے ان سے پیسے لئے تو ان کے ماتحت ہوجائیں گے اور پھر یہ جو چاہیں گے ہم کرنے کے پابند ہوں گے ۔
ایدھی کو ایک بار چند بااثر لوگوںنے کہا کہ الیکشن نہ لڑو پیچھے ہٹ جائوورنہ قتل کر دئیے جائو گے تو بلقیس ایدھی بتاتی ہیں کہ ایدھی نے کہا کہ میں اپنے گیٹ سے باہر چارپائی لگا کر سوتا ہوںمارنا چاہتے ہو تو آکر مار دو اس کے بعد ایدھی نے حیدر آباد کے راستے میں پڑنے والے نوری آباد میں دو قبریں کھدوا لیں ایک اپنی اور ایک میری کہنے لگے ہم یہیں دفن ہو ں گے ۔میں نے کہا کہ یہ تو بہت دور جگہ ہے یہاں کوئی فاتحہ بھی نہیں پڑھنے آئیگا تو کہنے لگے کہ بس اچھا کام کرو نیکی کرو باقی اللہ پہ چھوڑ دو ۔نہ وہ موت سے ڈرتے تھے نہ ہی ڈاکوئوں سے ۔وہ تو کسی بھی بہتی لاش کو نالے سے نکالنے کے لئے نالے میں رسی باندھ کر چلے جاتے تھے کہا کرتے تھے کہ میںجب لاش کو اٹھا لوں تو مجھے رسی سے کھینچ لینا ۔اسی طرح سے بہت بار ایسا ہوا کہ کسی بلڈنگ میں کرنٹ پھیل گیا اور ایدھی کو منع کیا گیا کہ اندر نہیں جانا لیکن وہ نہ ٹلے اور اندر جا کر عورتوں بچوں کو نکال کر باہر لائے ۔
ایدھی نمودو نمائش کے سخت خلاف تھے میں کہا کرتی تھی کہ ہم اتنا کام کررہے ہیں آپ کو چاہیے کہ آپ اس کی ایڈٹی وی پر دیں تو کہا
ایدھی کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام ہی ہماری ایڈورٹائزمنٹ ہے ہمیں کیوں ضرورت ہو ٹی وی کی بھلا۔
مجھے یاد ہے کہ ایدھی کے پاس اگر کوئی ضرورت مند آتا اور کہتا کہ میرے بچے کو باہر پڑھنے کیلئے بھیجنا ہے لیکن ٹکٹ کے پیسے نہیں تو ایدھی ارینج کر کے دیتے تھے اس طرح سے بہت سوں کی مدد کی ،آج ان میں سے بہت سارے لوگ باہر کے ملکوں میں اور اپنے ملک میں بھی اچھی ملازمت کررہے ہیں اور وہ چندہ بھیجتے ہیں ۔
بلقیس ایدھی نے کہا کہ میںنے اپنے شوہر سے یہ سیکھا کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں دونو ں کو ساتھ مل کر چلنا چاہیے وقت اور حالات بھلے بدلیں لیکن میاں بیوی کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم رہنا چاہیے۔