لاپتہ افراد کا مسئلہ دانشمندی سے حل کریں 

لاپتہ افراد یا مسنگ پرسن کے گھر والے جس کرب سے گزرتے ہیں یا گزر رہے ہیں اس کا ادراک ہر پاکستانی کو ہے۔ یہ وہ دکھ اور درد ہے جس سے ہر صاحب دل بے چین ہے۔ چند ماہ سے نہیں کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کبھی بھوک ہڑتالی کیمپ، کبھی احتجاجی کیمپ، کبھی پیدل مارچ کر کے ان افراد کی بازیابی کے لیے کوشاں ہیں۔ عدالتوں میں بھی کیس چل رہے ہیں۔ اس بھاگ دوڑ کی وجہ سے کئی گمشدہ یا لاپتہ افراد کی واپسی بھی ممکن ہوئی ہے۔  مگر ابھی تک بہت سے کیس حل طلب ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ سب لوگ قانون نافذ کرنے والے یا خفیہ اداروں کی تحویل میں ہوں۔ اب تو اعلیٰ  عدالت نے بھی مقمرہ وقت تک تمام لاپتہ یا گمشدہ افراد کو پیش کرنے کا حکم دیدیا ہے۔  
ان میں بہت سے  ایسے افراد بھی شامل ہیں جو غیر ملکی فنڈنگ سے ملک اور عسکری اداروں کے خلاف  اندرون و بیرون ملک منفی پراپیگنڈا مہم چلا رہے ہیں۔ کئی تو علیحدگی پسند نظریات کی آبیاری کر رہے ہیں۔ سینکڑوں نوجوانوں کو ان گمراہ عناصر نے برین واشنگ کر کے تربیت کے لیے افغانستان اور بھارت بھیجا جو وہاں سے آ کر اب غیر ملکی پیسوں اور جدید اسلحہ کے بل بوتے پر ملک بھر میں اور خاص طور پر بلوچستان اور فاٹا میں سرگرم ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر حملوں اور بم دھماکوں میں بھی یہی گروہ سرگرم ہے۔ ایسے افراد کے خلاف اگر کارروائی ہوتی ہے ان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو یہ غیر ملکی اشاروں پر کام کرنے والی تنظیمیں اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔ ایسے ہی جب یہ  لوگ گرفتار ہوں تو بھی شور مچایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے حوالے سے محب وطن افراد کی رائے یہی ہے کہ ایسے گمراہ لوگوں کو بھی مناسب اور ضروری پوچھ گچھ کے بعد عوام کے سامنے لا کر بے نقاب کیا جائے۔ عام عدالتوں میں نہ سہی خصوصی عدالتوں میں ان کے مقدمات چلائے جائیں تاکہ طویل صبر آزما مراحلے سے بچا جا سکے جو لوگ بے گناہ عوام یا سکیورٹی فورسز پر حملوں اور ان کی شہادتوں میں ملوث ہوں۔ ان کو کڑی سزا دی جائے جو لوگ بے گناہ ہوں۔ واجبی سا تعلق رکھتے ہیں ایسی تنظیموں سے تو ان کو کم از کم طویل عرصہ تک حراست میں رکھنے کی بجائے راہ راست پر لانے کا موقع دیا جائے ان کی کونسلنگ کی جائے۔ تاکہ کہ  وہ راہ راست پر آئیں۔ ان کو بازیاب کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ گمشدہ افراد تو نہ زندوں میں شمار ہوتے ہیں نہ مردوں میں۔ ان کے گھر والے علیحدہ اذیت کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔ یہ سراسر تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ ایسے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرنے سے ان کے گھر والوں کو تسلی تو ہو جائے گی کہ یہ زندہ ہیں۔ 
دنیا کے کسی ملک میں خواہ وہ کتنا ہی آزاد خیال، انسانی حقوق کا محافظ ہی کیوں نہ ہو۔ ملک کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے مہم چلانے انہیں بدنام کرنے کی اجازت نہیں۔ دہشت گردی سے ریاست کو نقصان پہنچانے کا تو تصور تک نہیں۔ یہی لوگ اگر امریکہ، بھارت، روس ، ناروے، سویڈن میں ہی کیوں نہ ہوتے اگر ایسی حرکت میں ملوث ہوتے تو وہاں بھی ان کو راتوں رات غائب کر دیا جاتا یا کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ۔ وہاں تمام تر آزادی کے باوجود میڈیا  ایسے افراد کے معاملات کو اوپن نہیں کرتا۔ ملک و قوم سے اپنی ریاست سے وفادار رہتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ ہر جگہ مذہبی‘ لسانی‘ علاقائی‘ تعصب کام کرتا ہے۔ یا بیرونی فنڈنگ کام خراب کرتی ہے۔
 اب یہ سیاسی جماعتوں رہنماؤں اور قائدین کا کام ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جہاں نفرت غصہ یا منفی سوچ پنپ رہی ہے وہاں خاص توجہ دیں۔ وہاں کے عوام کے مسائل حل کریں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ وہاں روزگار‘ تعلیم اور صحت کے مسائل حل کریں۔ خوشحالی تعمیر و ترقی کی راہیں کھولیں۔ محبت اور خدمت سے وہاں کے عوام کا د ل جیتیں  پھر دیکھیں جو کام گولی نہیں کرتی وہ پیار کر دیتا ہے۔ بلوچستان‘ سندھ‘ پنجاب‘ خیبر پی کے‘ فاٹا اور آزادکشمیر میں ایسے جذباتی نوجوان جوگمراہ ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ طبقاتی کشمکش اشرافیہ کے ہاتھوں عوام کی تذلیل۔  ملکی و قومی وسائل کی لوٹ مار اس پر مخصوص طبقات کا قبضہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ریاست اور اس کے محافظ اس لوٹ مارکو روکیں حقداروں کو ان کا حق دیں۔ مظلوموں کی دادرسی کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ورنہ اس طرح معاملات چلنے سے  ریاست  اور قوم کو زک پہنچتی رہے گی۔
اس لئے جو لوگ بھارت‘ افغانستان یا یورپی  خود ساختہ  جلا وطن کے نام پر عیش کر رہے ہیں۔ ان سے بھی عوام و آگاہ کیا جائے جو لوگ ریاستی تحویل میں ہیں ان کو بھی سامنے لایا جائے۔ بے گناہوں کو چھوڑا جائے ان کی دلجوئی کی جائے جو لوگ دہشتگردی اور دھماکوں میں عوام یا فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ وہ بھی قانون کے تحت سامنے لا کر تاکہ سب کو پتہ چلے کہ یہ کیا کر رہے تھے اور کون ہیں۔

ای پیپر دی نیشن