شہناز نقوی ملتان سے جب لاہور آئی تو کئی سالوں کے بعد میرے گھر اپنی نئی کتاب نیل گگن تلے لے کرآئی ایک تو عنوان مجھے بہت اچھا لگا نیل گگن تلے۔۔یہ کتاب َ نہیں تھی بلکہ یہ میرے لئے بڑا ہی انمول تحفہ تھا ۔چائے کے دوران ملتان کی باتیں ہم سب کے ساتھ کرتی رہیں کیونکہ اسکے اور ہمارے دوست مشترکہ تھے۔ خوب گپ شپ رہی اسکے جانے کے بعد نیل گگن میرے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔نہ صرف افسانوں کی کتاب ہے ۔ بلکہ اس کے اندر ایک دنیا آباد ہے۔ اس کا مطالعہ جب کیا تو اندازہ لگایا کہ شہناز نے اپنے آپ کو ایک ہمہ جہت شخصیت ثابت کیا ہے۔ وہ بیک وقت ناول نگار،شاعرہ،افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔شہناز نقوی کو کہانی لکھنے کا آرٹ آتا ہے۔ وہ مرد اور عورت کے مختلف رویوں سے واقف ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی چیرتی ہوئی نگاہ مرد اور عورت کے اندر جھانک لیتی ہے۔ سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے نوجوان لڑکی سے لے کر منجھی عورتوں کی ترجمانی بڑے اچھے طریقے سے کرتی ہیں۔
اس کتاب کاجب مطالعہ کیا تو اندازہ لگایا کہ جس طرح ہر شخص کا رنگ روپ اور فطرت دوسرے سے الگ ہوتی ہے ۔اسی طرح ہر لکھاری کے پاس قلم ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے اس قلم سے جو بھی تحریر کرے گا وہ دوسروں کی تحریر سے مختلف ہوگی۔ شہناز نقوی کو کہانی لکھنے کااچھاہنر آتا ہے۔اس کے افسانے ڈاک بنگلہ،نیل گگن تک،دھوپ چھائوں، آواز ِدوست، الائو، پرچھائیاں، کیتھرین،آسیب وغیرہ وغیرہ الگ نوعیت کے افسانے ہیںجو اختصار پسندی سے لکھے گئے ہیں۔۔۔سچ بات تو یہ ہے۔۔۔جو بات بیس(20) صفحوں میں کی جاتی ہے۔ وہی ڈیڑھ یا دو صفحوں میں لکھ کر قاری کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس کا مفہوم سمجھیں۔ یہ چیز مرحوم ڈاکٹر انور سجاد کی کہانیوں میں بھی ملتی تھی خدا انہیں غریق رحمت کرے۔
شہناز نقوی اپنے افسانے’’ دریچوں سے نیلے گگن تک‘‘ لکھتی ہیں۔ ’’اس افسانے میں ایک روایت پسند خاندان تھا جو بچی کو تعلیم دلوانا نہیں چاہتے تھے‘‘۔
دس بارہ سال کی ناہید دریچوں میں کھڑی دور سے نیلے گگن پر اڑتے پرندوں کو حسرت سے دیکھا کرتی اور سوچتی کہ مجھ سے تو یہ پرندے خوش نصیب ہیں کہ قدرت کی دی ہوئی کھلی فضائوں میں بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔باپ کے مرنے کے بعد تایا ماں بیٹی کو جب گھر سے نکال رہے تھے تو وہ لڑکی خود کلامی میں کہتی ہے۔
’’بابا میںتو آپ سے پہلے کہتی تھی کہ یہ ذہنی غلامیاں زندگیاں برباد کر دیتی ہیں اب اچانک حویلی کے دریچوں سے نیلے گگن تلے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا‘‘۔بقول شہناز کے اپنے ناولٹ کے بارے میں کہتی ہیں۔’’شاعر ‘ادیب اور باشعور طبقے نے زندگی کو ادب اور ادب کو زندگی کے قریب لانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ میرا ناولٹ رات کا مسافر جہاں زندگی کی سماجی تہذیبی قدروں کو متعارف کروایا ہے۔ وہاں زندگی کی جمالیاتی قدروں کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ اس ناولٹ میں اعلیٰ انسانی اقدار کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔رات کا مسافر شہناز کا ناولٹ ہے۔ جب میں نے پڑھا تو اندازہ لگایا اس کا مرکزی دھارا ہندوازم کی مذہبی کہانی ہے۔۔۔جس میں مر کر انسان دوسرا جنم لیتا ہے۔۔۔ ایک رومانوی کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔ جوں جوں قاری پڑھتا ہے۔ اساطیری فضا قاری کو جکڑ لیتی ہے اور قاری وہ ناولٹ ختم کئے بغیر نہیں رہتا۔بعض افسانوں میں تصویر کشی بہت عمدہ کی ہوئی ہے۔
’’کہتی ہیں اپنے افسانوں میں بیتے دنوں کی شام گائوں کی چاندنی رات بڑی دلکش نظر آتی ہے۔ چاندی کی نکھری نکھری ٹھنڈی روشنی جیسے پورے گائوں نے سفید پھولوں کی چادر اوڑھ لی ہو۔ دودھیا چاندنی کا ماحول میری روح کو ایک نئی تازگی اور سرور بخشتا ہے‘‘۔
شہناز نقوی دنیائے ادب میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کی شاعری اور افسانے ادب میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ لیکن اس کتاب میں ڈرامے بھی ایک خاص نوعیت کے ہیں۔ سوتے جاگتے ،زنجیر۔یہ ڈرامے جب پڑھے تو انتہائی خوشی ہوئی۔ کہانی کو کرداروں کی زبان میں حقیقی انداز میں پیش کرنے کا ہنر بھی موجود ہے۔ شہناز نقوی منفرد کہانیوں کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگاری میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔اس کی کہانیوں کے کردار وقت اور زمانے کی قید سے آزاد ہیں۔ یہ کہنا بجا ہے کہ وہ آفاقیت کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ جیسے عرض حال میں لکھتی ہیں۔آرٹ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ یہ ہمیں زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے بہتے جھرنے صاف شفاف چاندی جیسا پانی، مچلتی لہریں، گنگناتی فضا میں بادل ، بدلیوں کا ملن، جدائی، جاڑے کی چاندنی اور شاخوں پر برف کا پگھلنا، کبھی انہیں ٹہنیوں کا پتوں سے عاری ہو کر بہار کا انتظار کرنا۔ کبھی سمندر کی بہتی لہروں سے سپیاں چننا۔کبھی الفاظ سے پینٹ کرنا یہ سب کیفیات زندگی کو مزید خوشگوار احساس میں بدل دیتی ہیں۔ ان الفاظ کر پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خوبصورت الفاظ کے چنائو میں اپنی تحریر کو مزید رنگین بنا دیتی ہے۔