گلوبل ویلج کا رْوپ دھارے اس دنیا کی ہر ریاست بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت، سیاسی استحکام، اور فوجی طاقت اسے اس قابل بناتے ہیں کہ اپنے مفادات کا حصول ممکن بنا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیش نظر رہے کہ بین الاقوامی سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں، بلکہ قومی مفاد مستقل ہوتا ہے اور یہی قومی مفاد ان دوستیوں اور دشمنیوں کا تعین کرتا ہے۔
معاشی اور فوجی طاقت ہی ان ممالک کو اپنے مفادات کے حصول کی منزل تک لے جاتے ہیں۔ مثلا امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہونے کے سبب دنیا کے تقریبا ہر خطے میں اپنے مفادات کا حصول ممکن بناتا ہے۔ بقولِ شخصے امریکا دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے، ہر خطے میں موجود وسائل و مسائل میں شریک رہتا ہے۔ مشرقِ وسطی ہی کی مثال لیجئے۔ اس خطے میں امریکی مفادات کا تعین تیل کے زخائر سے ہوتا ہے۔ پچھلے صدی کی تیسری دھاء میں امریکا کی اس خطے میں آمد ہی تیل کی تلاش میں ہوء تھی۔ کیلی فورنیا کی ایک کمپنی انیس سو تیس کی دھاء میں سعودی عرب آء اور تین مارچ انیس سو اڑتیس میں سعودی تیل کے زخائر کی تلاش میں کامیاب ہوئ۔ اس کے مابعد، خطے میں امریکی مفاد سعودی تیل سے وابسطہ ہوگیا۔ اس مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پہلے تو یہاں ایک امریکیبستی بساء گء اور اگلی کچھ دھائیوں میں خطے کا پہلا امریکی فوجی اڈہ بھی بنا دیا گیا۔ انیس سو تہتر میں جب سعودی بادشاہ شاہ فیصل نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اسی تیل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے تیل کی سپلاء بند کی تو اسی امریکا نے شاہ کو اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔ بین الاقوامی سیاست کا وہی پرانا سبق دہرایا گیا کہ دوستی اور دشمنی مفادات کے تابع ہے۔
مشرق وسطی میں تیل سے جڑے امریکی مفادات کے حصول کی دوسری مثال ایران میں ڈاکٹر
مصدق کا تختہ الٹنے کی صورت میں سامنے آئے۔ جمہوی طور پر منتخب ایرانی وزیر اعظم کا واضح جھکاؤ سوویتیونین کی طرف تھا۔ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی ایرانی تیل کے زخائر کو قومیا لیا اور مغربی تیل کمپنیز کو ملک سے بیدخل کر دیا۔حیران کن طور پر پْوری دنیامیںجمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکا جمہوری وزیراعظم کا دشمن بن گیا۔ بالآخر امریکی مفادات کی راہ میں رکاوٹ بننے پر مصدق کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور امریکی مفادات کے رکھوالے کے طور شاہِ ایران کو طاقت سونپی گئی۔ رجیم چینج کی اس مثال میںیہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمہوریت جیسے خوش کن نظریات بھی مفادات کے تابع رہتے ہیں اور وقت آنے پر ان کی بھی قربانی دے دی جاتی ہے۔
تیل کے مفادات سے جڑی سب سے بھیانک مثال عراق میں سامنے آئے۔ عراق پر امریکی حملہ دو ہزار تین میں کیا گیا۔ اس حملے کی تیاری دو ہزار ایک میں نائن الیون کے فورا بعد ہی کر لی گء تھی۔ نائن الیون کی رات امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کو ایک حکم نامہ موصول ہوا۔ یہ حکم نامہ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی کے لیے ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس کی جانب سے تھا۔ اس حکمنامے میں کہا گیا کہ نائن الیون میں صدام حسین کے ملوث ہونے کی تحقیقات کی جائیں۔ اس سے کچھ دن بعد کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر جارج بْش ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اور یہی ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ وہاں بھی نائن الیون میں صدام کے ملوث ہونے بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ عراق پر حملے کا پْورا منصوبہ پیش کرتے ہیں جس کے مطابق عراق کے شمالی کْرد علاقوں اور جنوبی شیعہ علاقوں میں موجود تیل کی فیلڈز پر قبضہ کر کے صدام کو قابو کرنا تھا۔ امریکی صدر نے اس منصوبے کی تحسین کی۔ اس کے بعد دو سال تک عراق پر حملے کے لیے میڈیا اور بین القوامی سفارتکاری میں ایک ماحول بنایا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور بالآخر دو سال بعد عراق پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں دو لاکھ سے زائد عراقی شہری اپنی جانیں کھو بیٹھے۔ اس جنگ میں امریکی ٹیکس دھندگان کے ایک ٹرین ڈالرز سے زائد جھونک دیے گئے۔ تمام انسانی حقوق کی باتیں ہوا ہوئیں جب امریکی مفاد کا حصول پیشِ نظر تھا۔
جس طرح مشرق وسطی میں امریکی مفادات تیل سے جڑے ہیں، ایسے ہی جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کی نوعیت اسٹریٹیجک ہے۔ اس خطے میں جہاں ایک طرف امریکا کو چین کے پھیلاؤ کو روکنا ہے وہیں وسطی ایشیاء ممالک میں روسی عمل دخل کو کم کر کے اپنا اثررسوخ بڑھانا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے تو سرد جنگ کے دوران پاکستان کو مختلف معائدوں کے زریعے استعمال کیا جاتا رہا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھارت بروئے کار آیا تو امریکی نظرالتفات اسلام آباد سے نء دھلی منتقل ہوگئ۔ بھارت نے کمال سمجھداری سے موقع کو غنیمت جانا اور اپنا خارجہ امور میں عمل دخل بڑھایا۔ بھارت نے وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو سعودی عرب، ایران، اور عراق کے راہنماؤں سے سرزد ہوئیں تھیں۔ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی آزاد رکھی۔ جہاں ایک طرف بھارت چین مخالف مختلف اتحادوں میں شامل ہوا وہیں چین کے ساتھ اپنی تجارتی حجم بھی بڑھایا۔ اسی طرح ایک جانب جی سیون میں امریکی بلاک میں شریک ہوا تو دوسری جانب یْوکرین جنگ کے دوران رْوس سے سستا پیٹرول بھی خریدا۔ یہ متوازن خارجہ پالیسی بھارتی مفادات کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئ۔ کیونکہ بھارت کے پیشِ نظر بین الاقوامی سیاست کا یہ پرانا اصول تھا کہ بین الاقوامی سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں ملکی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔
آج کل ملک عزیز میں رجیم چینج آپریشن کا بہت غوغا ہے۔ امریکا کو یہ الزام دیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان میں تبدیلی سرکار اصل محرک ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کو اس کی بنیادی وجہ گردانا جا رہا ہے۔ درج بالا تفصیلات کی روشنی میںیہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی مفادات امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہر حال میں مقدم ہیں۔ پاکستانی خارجہ پالیسی میں توازن قائم رکھنا شاید وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ہمین دنیا کی تیں بڑی طاقتوں امریکا، چین، اور روس کے ساتھ تعلقات میں اپنے مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا