اس بات پر خوشی ہوتی ہے جب پاکستانی نژاد خواتین یا کوئی مرد کسی ملک میں اس ملک کی قومیت ہونے کے باوجود بھی پاکستانی کمیونٹی اورپاکستان سے محبت کا اظہارکرتاہے خاص طور پر سعودی عرب اور پاکستانی عوام میں محبت کے رشتے بہت مضبوط اور پرانے ہیں۔ محترمہ نوشین وسیم خاص طور جب سے سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی مشیر کی حیثیت میں کام کررہی ہیں اور سعودی حکومت کی پالیسوں کے مطابق یہاںنہ صرف مقامی افراد اور غیر ملکیوںکیلئے بھی تفریحی پروگراموں کا ا نعقاد ہورہا ہے ان سب میں محترمہ نوشین وسیم کا ایک کلیدی کردار ہے، وہ سعودی سسٹم میں گیارویںگریڈ پر فائز ہیں، سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی مشیر سے قبل وہ جدہ چیمبرز آف کامرس میں اپنی ذمہ داریاںنبھارہی تھیں 2013 ء میںسعودی حکومت نے ان غیرملکیوںکو موقع فراہم کیا جنکے اقامے یا مستنعادات سعودی لیبر لاء کے مطابق نہیں تھے ۔ کسی کی کفالت میں ہونا اور کام کفیل کے علاوہ کہیں اور کرنا ، یا اقامہ کے بغیر کام کرنا یہ سب قانونی جرم ہے مگر بے شمار لوگ 2013 ء تک صرف پاکستانی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے لوگ اس قانون شکنی کے مرتکب ہورہے تھے انہیں قانونی شکل دینے کیلئے ضروری تھا کہ وہ باقاعدہ قانون کے مطابق ملازمت کریں ، اس سلسلے مین نوشین وسیم نے اس وقت کے قونصل جنرل آفتاب کھوکر کے ہمراہ جدہ چیمبرز آف کامرس سے مکمل تعاون کیا ،جس میں سعودی عرب میں موجود کمپنیوںکو دعوت دی کہ وہ اپنے مطلوبہ پیشہ کے لوگ حاصل کریں اس سلسلے میں ’’JOB EXIBHITION کی گئیںاورہزاروںکی تعداد میں پاکستانیوں نے اس سے استفادہ حاصل کیا ۔نوشین وسیم نے سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام پاکستانیوں کیلئے بہترین اور منظم تفریحی پروگراموں کا انعقاد کیا جس سے لاکھوں پاکستانیوں اور انکے اہل خانہ نے اپنے آپکو اپنے ہی ملک میں محسوس کیا ۔ پاکستانی فنکاروںکو سعودی عرب میں اپنے پروگرام کرنے کے مواقع فراہم کئے نامور فنکار یہاں آئے جن میں راحت فتح علی، عاطف اسلم، ابرار الحق ، مزاحیہ فنکار شکیل صدیقی، کاشف خان اور دیگر شامل ہیں پاکستانی انکے فن سے محضو ظ ہوئے ، نوشین وسیم پروگراموں کی کامیابی میں دن رات ایک کردیتی ہیں ۔ نوشین وسیم پاکستان میں فلاحی کاموںمیں بھی یہاںسے مدد کرتی ہیں انہوںنے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں صاف پانی کے کنوئوں کا اہتما م کیا ہے جنہیں انہوںنے اپنے جوان سال بیٹے ، بیٹی کے نام کیا ہے جن کا نوجوانی میں ہی کینسر کے موذی مرض کی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا ، صاف پانی کے کنویںپراجیکٹ میں انکے ہمراہ دیگر افراد بھی شامل ہیں ۔پاکستانی پروگراموں کی میڈیا میںتشہیر کیلئے انکی کاوشوں میں سعودی عرب میں رضاکار اور تجربہ کار صحافیوںکے قدیم ترین فورم پاکستان جرنلسٹس فورم ہمیشہ انکے ساتھ رہاہے ۔
عمومی طور پر صحافیوں کیلئے مشہور ہے کہ وہ کھانوں،اور دعوتوںمیں مدعو ہوتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ اس شوق میںیہاں غیر تجربہ کار صحافیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر پاکستان جرنلسٹس فورم نے یہ اعزاز حاصل کیا کہ انہوںنے نوشین وسیم کی محنت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے گزشتہ دنوں انکے اعزاز میںعشائیہ دیا جس کے لئے پاکستان جرنلسٹس فورم کے اراکین انکی آمد کے شکرگزار ہیں۔عشائیہ میںفورم کے تمام اراکین نے نوشین وسیم کی خدمات کو سراہا اور انکے کاموں میں انکا ہمیشہ ساتھ دینے کا اعادہ کیا ۔ نوشین وسیم نے اس موقع پر کہا کہ میں1971 سے اپنے ساتھ پاکستان جرنلسٹس فورم کو پاتی ہوں اور انکی شکرگزارہوںکہ انکے اراکین نہائت ذمہ داری اور سنجیدگی سے تمام سرگرمیوںکو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ اس موقع پر نوشین وسیم کو ایک تعریفی شیلڈ بھی دی گئی ۔
معروف صحافی ، بزنس وومن سمیرہ عزیز کی والدہ مہر افروز کی رحلت
ؓؓ پاکستان بحریہ کے آفیسر مرحوم عزیز الرحمان کی زوجہ محترمہ مہر افروز گزشتہ دنوں ابدی آرام کی طرف روآنہ ہوگئیں۔ مرحومہ سعودی عرب کی نامور خاتون محترمہ سمیرہ عزیز کی والدہ تھیں۔ سمیر عزیز کی والدہ نے تمام عمر محنت اور مصروفیت کو اپنا نصب العین بنایا۔ و ہ لکھنوسے پاکستان بننے کے دوسال بعد پاکستان آگئیں، شادی کی اور تقربیا ساڑھے چار سال بعد انکے شوہر کا انتقال ہوگیا ، شوہر کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اولادکی تربیت پر صرف کر دی۔ سمیر عزیز کے والد مرحوم عزیز الرحمان 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے تھے اور پاکستان سے سعودی عرب کے شہر الخبر میں سعودی بحریہ کے نوجوانوںکو تربیت دیتے رہے۔
سمیرہ عزیز کی پیدائش الخبر میں ہوئی شوہر کے انتقال کے بعد مرحومہ مہر افروز پاکستان منتقل ہوگیں اس وقت سمیرہ عزیز کی عمر دو سال تھی۔ سمیرہ عزیز 16 سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ گئیں ، والدہ کی تربیت کو انہوںنے اپنا نصب العین بنایا اور تعلیم اور معاشرے میں ترقی پائی ۔والدہ کے انتقال کی خبر سے انہیں شدید دھچکا لگا ، جس روز والدہ کا انتقال ہوا اس روز خلاف توقع مرحومہ نے سمیرہ عزیز سے دن میں کئی مرتبہ بات کی،سمیرہ عزیز کی تصانیف میں کرکٹ پر ایک کتاب بھی ہے جسکی رونمائی سمیرہ عزیز نے اپنے والدہ سے کرانا تھا انکی والدہ کو از حد خوشی تھی کہ وہ اس کتاب کی رونمائی کرینگی جسکے لئے انہوںنے خصوصی نیا لباس بھی تیار کیا تھا اور انتقال والے دن انہوںنے وہ لباس زیب تن کرکے سمیرہ عزیز کو دکھایا ،کسی کو کیا پتہ تھا کہ اس شام کو اس دنیا میں نہیں رہیںگی ، اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور خالق حقیقی سے جا ملیں۔اناللہ و اانا الہ راجعون ۔ سمیرہ عزیز فوری اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان روآنہ ہوئیں ، نظام کے مطابق سعودی افراد کو پاکستان کیلئے آن لائن ویزہ لینا پڑتاہے ، وہ اس بات سے لاعلم تھیں، کراچی کے ہوائی اڈے پر انہیں روک لیا گیا اور واپس سعودی عرب بھیجنے کی بات کی امیگریشن اسٹاف نے ، مگر سمیرہ عزیز نے انہیںبتایا کہ وہ اپنی والدہ کے انتقال پر آئیںہیںاورسمجھتی تھیں کہ ’’on arrivalویزہ مل سکتا ہے ، سمیرہ عزیز امیگریشن اسٹاف کی بہت شکر گزار ہوئیں کہ انہوںنے اسی وقت کمپیوٹر پر ویزہ فارم پر کیا اور انکی آمد کو قانونی شکل دی مگر اس پر انہیں چند گھنٹے ہوائی اڈے پر رکنا پڑا ۔ سمیرہ عزیز بہ حیثیت لکھاری، صحافی اور کامیاب بزنس وومن کے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی مشیر نوشین وسیم کی کاوشوںپرپی جے ایف کی مبارکباد
Jul 08, 2022