پانچ جولائی 1977ء کیوں رونما ہوا؟

 آج آپ سے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے بات کرنے کا موقع پارہا ہوں‘ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ بہت سے نشیب و فراز سے گزری ہے اور ابھی تک ملک میں جمہوری استحکام کی منزل نہیں ملی۔ یہ ملک واقعی بر صغیر کے مسلمانوں کی رائے سے بنا‘ یہ رائے عامہ مسلم لیگ نے ہموار کی تھی اور لیڈر شپ بھی ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح جیسی میسر تھی‘ جو قانون دان بھی تھے‘ سیاست دان اور مدبر بھی تھے‘ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں‘ جب جب بھی سیاسی جدوجہد کی‘ نکتہ نگاہ پیش کیا‘ اور اپنی رائے دی‘ کبھی ان کی گفتگو اور رائے اخلاقیات سے باہر نہیں ہوئی اور نہ ایسی سیاسی جدوجہد کی جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے چینی پیدا ہوئی ہو‘ پر امن اور قانون کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کرتے ہوئے دلیل کی بنیاد پر اپنی بات منواتے ہوئے انہوں نے پاکستان حاصل کیا۔ ان کی سیاسی جدوجہد اور ان کی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین سیاسی راہنمائی، ایک پیغام ہی نہیں بلکہ باعث افتخار بھی ہے۔ ملک کی ہر سیاسی جماعت کا یہ حق ہے کہ وہ عوام کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے اور عوام کی آئین قانون کے تابع رہ کر راہنمائی کی جائے۔ جہاں بھی یہ صفت کسی بھی سیاسی جماعت کے گھر میں موجود نہیں ہوگی تو وہاں مسائل بھی پیدا ہوں گے اور ملک میں جمہوریت بھی مستحکم نہیں ہوپائے گی۔
 5 جولائی1977 کا فوجی اقدام ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے۔ آج چھیالیس سال گزر گئے چکے ہیں مگر یہ آج بھی ملکی سیاست کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔ اس واقعہ کا آئین کی روشنی میں تجزیہ بہت ضروری ہے‘ آئین کہتا ہے کہ حکومت آئین کے مطابق ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہے‘ جہاں بھی حکومت آئین کی اس بنیادی روح کو نہیں سمجھے گی اور اسے نظر انداز کرے گی تو پھر آئین کہتا ہے کہ ملک کا ہر شہری آئین کا وفادار ہوگا۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو پانچ جولائی جیسے واقعات کے ہر سوال کا جواب دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اسے تعصب کی آنکھ سے دیکھ رہا ہو لیکن جب اسے حقائق کے عدسے سے دیکھا جائے گا تو اس فوجی اقدام کیلئے اس وقت کی حکومت کے مستقل اقتدار میں رہنے کے خاموش اقدامات اور خواہشات کا ایک انبار نظر آئیگا۔
 5جولائی 1977 کے فوجی اقدام سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا بھی گیا۔ 46 سال گزرنے کے باوجود یہ موضوع پرانا نہیں ہوا، آج جب بھی کوئی اس واقعہ پر گفتگو کرے گا تو اسے حامی اور مخالف نکتہ نظر ملے گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی سیاسی لیگیسی نہ صرف موجودہے بلکہ اس ملک کی ترقی، سلامتی،خوشحالی اور اس ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے ناقابل تسخیر اقدامات کی وجہ سے ان کی سیاسی وراثت کا دائرہ وسیع ہے، یہی وجہ ہے کہ 17اگست کو ان کے یوم شہادت پر ہر سال ملک بھر سے لاکھوں عقیدت مند دعا کے لیے آتے ہیں۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی اس ملک کے دفاع کیلئے اور اللہ کی راہ میں شہادت کو تقریبا پینتیس برس ہونے کو ہیں، ان کی حکومت کے دوران‘ بلکہ ان کی شہادت تک میرا سیاسی کارکن کی حیثیت سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ سیاسی سفر ان کی شہادت کے بعد شروع کیا ہے۔ کئی بار سوچا کہ ملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس پر اپنی رائے دوں، مگر یہ سمجھ کر خاموش رہا کہ ہوسکتا ہے اسے تعصب کی نگاہ سے دیکھا جائے، تاہم تعصب اور حقائق کی کشمکش ہی ہمیں بہتر فیصلہ کرنے‘ رائے دینے‘ نظریہ پاکستان، اسلام اور اس ملک کی مٹی کا ایک ایک ذرہ حقائق کا ساتھ دینے اور اس کا پرچار کرنے کی تلقین کرتا ہے، ایک سیاسی کارکن کے طور پر میری رائے میں‘ ووٹ کا احترام نہ کرنے کا نتیجہ پانچ جولائی یا ان جیسے واقعات ہی ہو سکتے ہیں‘پاکستان کے آئین، اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی نظام میں آئین سے ہٹ کر اور اسکے متعین کردہ دائرے سے باہر نکل کر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا سیاسی جمہوری لحاظ سے کبھی پسندیدہ اور آئینی عمل نہیں سمجھا گیا، اور نہ سمجھاجائے گا، لیکن جہاں ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کھائی گئی ہو اور ملکی دفاع اور اس کی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے۔ جمہوری اور سیاسی لحاظ سے ہمارا آئین مقدم ہے اور جب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے اور آئینی تحفظ فراہم کردے تو پھر بحث ہی ختم ہوجاتی ہے. 1985ء کی منتخب قومی اسمبلی نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے، تاہم ایک طبقہ ہے جو فیشن کے طور پر اپنی بات کرتا رہتا ہے، پانچ جولائی 1977 کے اقدام کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں تاریخ میں یہ ملتی ہے کہ ملک میں آئینی عمل داری نہیں تھی‘ ساری مراعات پر صرف حکمران جماعت کا حق سمجھا جاتا تھا‘ اپوزیشن جماعتوں کے پروگرام کو پسند کرنے والے عوام خوار ہو رہے تھے اور معاشی روزگار کے سارے در صرف پیپلزپارٹی سے وابستہ افراد کے لیے کھلے تھے، راشن ڈپو ان کے نام الاٹ تھے، حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ اگر محلے میں کسی گھر میں شادی ہوتی تو وہ پوری گلی کے راشن کارڈ اکٹھے کرکے چینی لینے پر مجبور ہوتا، ملکی سیاست کاعالم یہ تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو دیکھنے اور برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے، ووٹ کا تقدس تسلیم نہ کرنے پر ملک کی انتظامی مشینری عوامی احتجاج کے نتیجے میں تقریباً مفلوج ہوچکی تھی، پانچ جولائی کے اقدام کیخلاف عدالت میں دائر کی گئی رٹ درخواست پر فیصلہ آج بھی محفوظ ہے اور اسے پڑھ کر پوری آگاہی مل جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے نصرت بھٹو کیس میں اپنے فیصلے میں اس وقت کے ملکی حالات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔(جاری ہے) 

   5جولائی کا مارشل لا تو بعد میں نافذ ہوا، اس سے پہلے خود بھٹو حکومت کے دور میں آئین میں دی گئی گنجائش کی آڑ لے کر ملک کے تین شہروں لاہور‘ کراچی اور حیدر آباد میں ضلعی انتظامیہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج سے مدد طلب کرچکی تھی اور باقاعدہ مارشل لانافذ کیا مگر اس کے باوجود عوام اس حکومت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے رہے، یہ ساری صورت حال7 مارچ1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات کے بعد عوام کے احتجاج کی صورت میں پیدا ہوئی تھی، جس سے ملک میں امن و مان کا شدیدمسئلہ پیدا ہوا۔ 7 مارچ1977 کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی، اور ملک میں اس حکومت کو کوئی چیلنج نہیں تھا،آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت14 اگست1977 کو ختم ہونے والی تھی، بھٹو صاحب نے 1975 میں ہی ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس وقت بائیں بازو کے اپنے انقلابی حامیوں کے ہاتھوں ہی پریشان تھے، کسنجر کہانی بھی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کرکے بھٹو صاحب نے انتخابی مہم بھی شروع کردی اور5 جنوری 1977 کوملک میں مزید زرعی اصلاحات کرکے مالیہ ختم کردیا اس کے علاوہ25 ایکڑ نہری اور50 ایکڑ بارانی اراضی کے مالکان کے لیے انکم ٹیکس بھی معاف کردیا اگلے ہی روز سول اور فوجی ملازمین کی پنشن میں دوگنا اضافہ کردیا اور10 جنوری1977 کو صدر فضل الہٰی چوہدری نے قومی اسمبلی تحلیل کردی، اعلان کیا کہ عام انتخابات وقت سے پہلے 7 مارچ کو ہوں گے اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ ہوگی، ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی17 جنوری تک وصول کیے جائیں گے۔ انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ’’سیاست دان بھی انتخابات سے اتنا ہی گریزاں ہوتے ہیں جتنا فوجی جرنیل جنگ سے۔ سیاسی لڑائی خواہی نخواہی لڑنا پڑتی ہے اورمجھے یقین ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے‘‘ انتخابات کے اعلان کے بعد11جنوری کو اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تشکیل کا اعلان کردیا گیا، بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی افراد جن میں رفیع رضا شامل ہیں، نے مکمل علم ہونے کے باوجود انہیں اپوزیشن کی خاموش انتخابی تیاری سے بے خبر رکھا۔پیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ کوئی سیاسی حریف اس کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا اس کے باوجود اس نے اپنی کامیابی کے لیے’’فول پروف اقدامات کیے‘‘انتخابات کے اعلان سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں11 اپریل1976 کو ایک ماڈل الیکشن پلان بنایا اس دستاویز پر بھٹو صاحب کے دستخط ہیں اور یہ سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اسی پلان کے تحت انتخابات سے پہلے وزرائ￿ کی نگرانی میں انتخابی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں، بھٹو کابینہ کے رکن کی گواہی بھی تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ ’’امیدواروں نے 
اپنے…… قیاس کے مطابق اپنے حلقوں، ضلعوں اور ڈویڑنز کی از سر نو حد بندی کرلی ہے‘‘ عام انتخابات میں سرکاری گاڑیوں اور کارکنوں میںآتشیں اسلحہ کی تقسیم ہوئی اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرکاری اہل کاروں پر دبا? ڈالا گیا۔بھٹو صاحب کی بلا مقابلہ کامیابی کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے بیشتر وزرائ￿ بھی بلامقابلہ کامیاب قرار پائے، بہر حال عام انتخاب کیلئے بیالیس روزہ انتخابی مہم تلخ اور ہنگامہ خیز واقعات سے بھرپور تھی، انتخابی نتائج آئے تو پیپلزپارٹی نے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پاکستان قومی اتحاد کو صرف36 نشستوں پر کامیابی ملی، کچھ آزاد امید وار کامیاب ہوئے اور متعدد نشستوں پر دیگر جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے، 155نشستوں پر پیپلزپارٹی کی کامیابی ہی اصل میں خطرے کی گھنٹی تھی۔ ملک میں رد عمل بہت شدید ہوا اور پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن کمیشن توڑنے، فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں از سر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا اور دھمکی دی کہ اگر14مارچ تک مطالبات تسلیم نہ کئے تو ملک گیر تحریک چلائی جائے گی۔ 12 مارچ کو بھٹو صاحب نے مذاکرات کی پیش کش کی مگر پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے اسے مسترد کردیا اور بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں، بھٹو صاحب نے19 مارچ کو خط کا جواب دیا کہ از خود انہوں نے شکایات کا جائزہ لینے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس وقت پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتیں کوئی زیادہ منظم نہیں تھیں، ان کے پاس وسائل بھی نہیں تھیاور قیادت بھی کوئی کرشماتی نہیں تھی لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد بھٹو صاحب کی حکومت سے تنگ تھی لہٰذا حکومت کے خلاف غصے اور نفرت میں عوام نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا ساتھ دیا۔ پاکستان قومی اتحاد کی عوامی تحریک آگے بڑھی تو بھٹو حکومت بھی چاروں صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کیلئے تیار ہوگئی اور اعلان کیا کہ اگر پاکستان قومی اتحاد صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرلے تو وہ قومی اسمبلی توڑدیں گے تاکہ قومی اسمبلی کے بھی ازسر نو انتخابات ہوسکیں، لیکن پاکستان قومی اتحاد کی تحریک عوام کی شرکت کے باعث زور پکڑ چکی تھی لہٰذا وہ نئے انتخابات کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، یہی وہ موڑ ہے جہاں کہانی نے ایک نیا رخ اختیار کیا کہ10 اپریل کو بھٹو صاحب نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیائ￿ الحق سے ملاقات کی، اور کہا کہ’’ان کی حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرے گی اور انتخابی مسائل کے حل کیلئیمذاکرات کے دروازے بند نہیں کرے گی،تاہم فوج کسی بھی ناگہانی صورت حال کے مقابلے کے لئے خود کو تیار رکھے‘‘ یہ پہلی دعوت تھی جو بھٹو صاحب نے مداخلت کیلئے فوج کو دی تھی، اس ملاقات کے بعد جنرل ضیائ￿ الحق نے اپنے رفقائ￿ کار کو اعتماد میں لیا تاہم وہ اس نکتہ پر اتفاق کرچکے تھے کہ حکومت کا اعتماد داغ دار ہوچکا ہے اور اسے عوام کی حمایت اور تائید حاصل نہیں رہی اور فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم کو بتادیا جائے کہ عوام میں ان کی حکومت کے بارے میں بہت غصہ اور ردعمل ہے اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی۔جنرل محمد ضیائ￿ الحق کے بہت سے رفقائ￿ بلکہ جنرل محمد شریف کی گواہی موجودہے کہ بھٹو صاحب کی اس وقت کی فوجی قیادت نے مکمل حمایت کی اور انہیں حالات درست کرنے کیلئے ہر ممکن مدد بھی فراہم کی، بھٹو صاحب نے17 اپریل کو جن اقدامات کا اعلان کیا اس کی بھی مکمل تائید کی گئی،مقصد یہ تھا کہ سیاسی بحران ٹل جائے۔ جنرل ضیائ￿ الحق کا حکومت کیلئے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک میں حکومت کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ حالات درست ہوجائیں اورا س کیلئے… حکومت کو موقع بھی دے رہے تھے، مگر پیپلزپارٹی کی غیر مقبولیت عروج پر تھی اور عوام میں غصہ اور رد عمل بھی شدید تھا،اس کا جواز بھی خود حکومت کے وزرائ￿ نے ہی فراہم کیاتھا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک گیرتحریک در اصل بھٹو مخالف تحریک بن چکی تھی۔ 20 اپریل کو حکومت نے خود ایک فیصلہ کیا اور ملک کے دو اہم شہروں کراچی اور لاہور میں مارشل لا نافذ کرنے کا عندیہ دیا، فوجی قیادت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ یہ سلسلہ پھر آگے ہی بڑھے گا واپس نہیں آئے گا،بہر حال حکومت نے لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لانافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل محمد شریف کو اس کی ہدائت کردی گئی۔ وزیر اعظم نیاٹارنی جنرل کو فرمان جاری کرنے کیلئیڈرافٹ تیارکرنے کی ہدائت کی کہ صدر فضل الہٰی چوہدری سے اس پر دستخط کرالئے جائیں۔ اس کے باوجود اس وقت کے وزیر اعظم صاحب سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں، اس سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا جائے؟تاہم یہاں1977 کے مارشل لاکے کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیںتاکہ سیاسی تاریخ کے طالب علم اس سے رہنما ئی لے سکیں اور وہ اس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں واقعات کو پرکھ اور سمجھ سکیں، جب ملک میں فوج نے نظم و نسق سنبھالا تو اس وقت کے صدر جناب فضل الٰہی چوہدری نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور مارشل لا حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کی درخواست بھی قبول کرلی بلکہ انہوں نے متعدد مشورے بھی دیے، بالکل آغاز پر جنرل محمد ضیائ￿ الحق نے اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو صاحب سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی اور انہیں فیصلے سے آگاہ کیا، بھٹو صاحب نے ان سے مری منتقلی کیلئے کچھ مہلت مانگی جو انہیں دی گئی اور بتایا گیا کہ وہاں آپ کاا سٹاف آپ کے ساتھ ہوگا، یہ ایک نہایت مختصر سا پس منظر ہے جس کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات اور واقعات دیکھنے اور سمجھنے کیلئے بھٹو صاحب کے معتمد ساتھی پیپلزپارٹی کیرہنما رانا شوکت محمود کی کتاب ’’رد انقلاب‘‘کے علاوہ جنرل کے ایم عارف کی کتاب ’’ورکنگ ود ضیائ‘‘ اور محترم چوہدری ظہور الہٰی کی زندگی پر لکھی گئی کتاب سے بھی مدد لی گئی ہے، اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم آج اپنے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیں، سیاسی جماعتیں مل کر اس پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ آج بھی حالات ماضی سے مختلف نہیں، اگر مگر کی سیاست جاری رہی تو حالات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں

ای پیپر دی نیشن