ذہن انسانی احساسات کا منبع

       از شاز ملک

انسانی ذہن احساسات کا منبع ہے اور اللہ نے انسانی صورتوں کی طرح دل جسم اشکال اور ذہن بھی الگ الگ تخلیق فرمایے ہیں سوچ کے زاویے الگ الگ ہوتے ہیں انسانی ذہن کی ارتقا اور وسعت بھی خالص اللہ کی دین ہے اجسام انسانی جب زمانے کے ہاتھوں تلخ و شیریں لمحات کے سرد و گرم حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں تو انکے ذہن و دل اور سوچیں تبدیل ہوتی ہیں ببسا اوقات شعور آگہی اور سمجھ ملتی ہے اور بسا اوقات چھن بھی جاتی ہے حالات انسانی ذہن کو مفلوج کر دیتے ہیں اور پھر سوچیں منتشر ہو جاتی ہیں ہیم سب زندگی میں بار ہا ان کیفیات سے گزرتے ہیں خوشی و کرب کے لمحات سے دو چار ہوتے ہیں غم کی بارشوں میں بھیگتیہیں تو خوشی کی ہوا سے آشنا ہوتے ہیں اسی طرح جو دل ذھن اللہ کی محبت میں سرشار ہوتے ہیں انکی سوچ انکے دل و ذھن اور روحوں کو الگ ہی رکھا گیا ہے کیوں کے وہ ہر پہلو ہر زاویے سے اپنے رب کی محبت کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں وہ درد میں سکوں کو تلاش کر لیتے ہیں انکے دل وہ بلاٹنگ پیپر بن چکے ہوتے ہیں اللہ کی محبّت انکے ذہن و دل جذب کر چکے ہوتے ہیں کے پھر کویی محبت ان میں جذب نہیں ہو سکتی وہ دنیا میں رہ کر دنیاوی تقاضوں کو بھی نبھاتے ہیں اور رات کو اللہ کی بارگاہ میں سجدوں میں روتے ہیں اپنی خطاؤں پر شرمسار ہوتے ہیں دنیا داری کے جھمگھٹو ں میں بھی وہ اپنے اللہ کے احکامات کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں 
نرم روی اخلاقیت میانہ روی بردباری اور سب سے بڑھ کر خوف خدا کو زاد راہ بنا کر دنیا داری کے کٹھن راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں 
دنیا انہیں جو بھی جانے رب کی بارگاہ میں یہی مقبول بندے ہیں یہی فلاح پانے والے ہیں کیوں کے محبت کے ترازو میں جب انکے دل تولے جاتے ہیں تو اخلاص سے بھرے انکے دل میزان محبت پر بھاری ٹھہرتے ہیں 
یہی وہ اخلاص والے لوگ ہیں جو دنیا کی آزمایشوں 
کو ہستی جان پر سہ کر بھی ثابت قدم رہتے ہیں 
اپنے دل سے اللہ کی محبت اور اخلاص کو جدا نہیں کرتے 
اپنا مرکز نگاہ نہیں بدلتے وہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بری جان کر ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یوں رب کی بارگاہ میں انکے اخلاص نیکیوں کا گرا ف بڑھتا رہتا ہے کیوں کے ذرہ زرہ صحرا اور قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور یہی دریا کا پانی انکے اعمال کو سرسبز و شاداب رکھتا ہے اور پھر آخر میں انکی قبر بھی انہی اعمال کی وجہ سے انھیں سرسبز و شاداب ملتی ہے 
اور پھر یہی روحیں چین کی منزل کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں …

ای پیپر دی نیشن