یوم شہادت سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مو لا نا محمد امجد خان
 نبی اکرمؐ  اللہ کریم سے ھر انسان کی ھدایت اور مسلمان بننے کے دعا بھی فرماتے تھے اور اس حوالے سے فکر مند بھی رھتے لیکن روایات کے مطابق آپ ؐ نے دو میں سے ایک کے ایمان لانے کے لئے عجیب دعا فرمائی کہ یا اللہ عمر یا عمرو میں سے کسی ایک کو کلمہ پڑھنے کی توفیق دے اور اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا دے ۔قربان جائیں محبوب رب کائنات ؐپر کہ دنیا نے دیکھا اور پڑھا کہ عمر فاروق اسلام کی عزت کا ذریعہ اور کفر کیلئے پریشانی کا باعث بنے اور پھر اسلام کاپرچم لہراتا ھی چلا گیا ۔
خلیفہ ثانی کا اسم گرامی حضرت عمر،لقب فاروق اعظم حضر ت سیدنا عمر فاروقؓ کو تمام اصحابؓ میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کو آنحضرت ؐ نے خدا سے مانگ کر لیا ہے بقول بزرگ حضور اکرمؐ مراد ابراہیم علیہ سلام ہیں اور حضرت عمر فاروقؓ مراد مصطفی ؐ ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے بیت اللہ شریف کے امام خاتم الا انبیا ءؐ مبعوث ہوئے اور حرم آبا د ہو ا اور حضور ؐکی دعاسے حضرت عمر فاروق  ؓ نے اسلام قبول کیا اور آپ کی خواہش اور تجویز پر صحن حرم میں با جماعت نماز ادا کر نے کی باقاعدہ ابتدا ء ہو ئی۔خطیب اسلام فرماتے تھے کہ حضرت عمر ؓ کے مقام ومرتبہ کا انداز ہ تین با تو ں سے لگا یا جا سکتا ہے۔
(1)اللہ تعالی کے ہاں سب سے عظیم الشان درجہ نبوت کا ہے بندہ محنت وریاضت کے ذریعے ولی تو بن سکتا ہے لیکن نبی نہیں بن سکتا حضور اکرم ؐنے حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں فر ما یا اگر میرے بعد نبوت ہوتی تو حضرت عمر فاروقؓ کو یہ درجہ عطاء کیا جا تا مگر میں خاتم النبینؐ ہوں میرے بعد کوئی نبی یا رسول (پیدا ہو کر) نہیں آئے گا۔حضرت عیسٰیؑ ضرور تشریف لائیں گے وہ مجھ سے پہلے آچکے ہیں۔
 (2)اللہ تعالی نے حضرت عمرؓ کی رائے پر کئی بار قر آن میں آیات نازل فرمائیں،حضرت شاہ ولی اللہؒ فر ماتے ہیں قر آن مجیدمیں سترہ مقاما ت ایسے ہیں جہاںحضرت عمر کی رائے کے مطابق نزول ہوا باقی اصحابؓ میں اتنا بڑا اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔
(3)آنحضرت ؐ نے آپ کو اللہ رب العزت سے مانگ کر لیا ہے حضرت عمر فاروقؓ کو جہاں یہ اعزاز حاصل ہے وہاں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خطہ ارضی پر (۲۲لاکھ ۵۵ ہزار مربع میل)پر حکمرانی فر مائی وہیں عناصر اربعہ جو تخلیق انسانی کے جز ہیں مٹی،پانی،ہوا اور آگ پر بھی آپ نے حکمرانی فر ما ئی ۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒفر ماتے ہیں جو باتیں خلاف عادت وتوقع انبیاء کرامؑ کے ہاتھ پر ظاہر ہوں انھیں معجزہ جو اللہ کے نیک بندو ں کے ذریعے ظاہر ہو ں انھیں کرا ما ت کہتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ ایک بار  مدینہ منورہ میں تشریف فر ما تھے کہ زلزلہ کی کیفیت زمین پر طاری ہوئی اور زمین کانپنے لگی حضرت عمر ؓ کا درہ تو مشہور تھا جس نے عدل وانصاف میں اپنے اور بیگانے کا فرق مٹا دیا درہ زمین پر مارا اور فر ما یا کیوں کانپتی ہے کیا زمین تجھ پر عمر ؓ نے انصاف نہیں کیا زلزلہ اسی وقت تھم گیا۔ زمین کا تھم جانا اس بات کی گواہی تھا کہ آپ  نے انصاف کا حق ادا فر ما یا ہے اور علمائِ سلف میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت عمر ؓ کے عدل اور محدثین کے اسفار کے وسیلہ سے جو دعا مانگی جا ئے اللہ تعالی اس کو شرف قبولیت سے نوا ز تے ہیں۔
دریا نیل مصر کا مشہور دریا ہے سال میں ایک بارخشک ہو جا تا تھا چنانچہ مصر کے لوگ ایک خوب صورت لڑکی کا بنا ؤ سنگھار کر کے اس دریا میں ڈالتے تو پانی حسب معمول جاری ہو جا تا۔مصر جب فتح ہوا،اسلام کی روشنی جب وہاں پہنچی تو حسب روایت دریا خشک ہو نے کے وقت لڑکی کو تیار کر کے اہل مصر پھینکنے لگے تو مصر کے حاکم نے حضرت عمر ؓ نے کو اس رسم بد سے بذریعہ خط آگا ہ فر ما یا۔ حضر ت عمر ؓ نے فر ما یا کہ انسانی جان دریا سے قیمتی ہے میرا یہ خط دریا میں ڈال دو لوگ حیران تھے نیل ایک دریا ہے انسان تھوڑا ہی ہے کہ وہ خط پڑھ سکے یا اس  کا مطلب جان سکے مگر انھیں یہ پتہ نہ تھا جو رب العا لمین کا حکم ما نتا ہے پھر ساری کا ئنات اس کاحکم  ما نتی ہے۔خط کامضمون پڑھ حضرت عمر ؓکے ایمان ویقین کاا ندازہ لگا یا جا سکتا ہے اس کے ایک ایک حرف سے توحید ٹپکتی نظر آتی ہے۔
حضرت عمر ؓ نے لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم (اللہ تعالی کے بندے عمر بن خطاب ؓکی طرف سے نیل مصر کے نام ہے اگر تو اپنے اختیار سے جاری رہتا ہے تو ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور اگر تو اللہ تعا لی کے حکم سے جاری ہے تو پھر تجھے جا ری رہنا چاہیے یہ خط جب دریا میں ڈالا گیا تو نیل میں پا نی ایسے چڑھنا شروع ہوا  جیسے سیلاب کے دنوں میں تیزی سے چڑھتا ہے اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک جاری ہے ۔حضرت عمر فاروق ؓ ایک روز جمعہ کا خطبہ ارشاد فر مارہے تھے کہ اچانک خلاف معمول دوتین بار فر ما یا یا سار یہ الجبل اے ساریہ ؓپہاڑ کی طرف دیکھ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے بعد میں دوران خطبہ اس جملہ کے کہنے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمر ؓ نے فر ما یا کہ عراق میں نہا وند کے مقام پر حضرت ساریہ ؓکی قیا دت میں جو لشکر مصروف جہاد ہے میں نے دیکھا کہ اس کے سامنے سے کفار کا لشکر آرہا ہے جس کی حضرت ساریہ ؓ کو خبر ہے اور پیچھے سے جو لشکر آرہا ہے پہاڑ سے اسکی خبر نہیں چنا نچہ میں نے یہ الفاظ بے اختیار کہے (اور اس یقین کے ساتھ کہے کہ اللہ تعالی نے ان تک پہنچا دیں گے)کچھ دنوں بعد عراق سے جب حضرت ساریہ ؓکا قاصد آیا تو اس نے اس کی تصدیق کی کہ ہم لوگوں نے جمعہ کے دن فلاں وقت حضرت عمرؓ کی آواز سنی اور سنبھل گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر دشمن سے مدافعت کی اللہ تعا لی نے کا میا بی عطاء فر ما ئی ۔
حضرت عمر ؓ کی کرامت میں سے آپ کی وہ دعا بھی ہے جو پروردگار کے حضور مانگا کرتے تھے اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت نصیب فر ما اور دے بھی شہر مدینہ میں صحابہ کرام ؓ اس پر تعجب کا اظہار کرتے کیونکہ شہادت تو میدان میں آتی ہے لیکن اللہ تعالی نے دعا قبول کی شہا دت بھی مدینہ شہر میں آئی مسجد نبوی میں نصیب ہوئی اور نماز پڑھتے ہوئے نصیب ہوئی اور مزید یہ کہ تد فین بھی نبی ؐ اور سید نا صدیق اکبر ؓ کے پہلو میں نصیب ہوئی اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرات کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق نصیب فر مائے۔امین

ای پیپر دی نیشن