خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت علامہ منیر احمد یوسفی
امیر المؤمنین حضرت سیّدناعمر فاروقؓ واقعہ فیل کے ۱۶ سال بعد پیدا ہوئے۔آپ کاسلسلۂِ نسب آٹھویں پشت میں رسول کریم رؤف ورحیم ؐ سے جا ملتاہے۔ جس کی تفصیل اِس طرح ہے (عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔کعب کے دو بیٹے تھے مرہ اور عدی۔ مرہ کی اَو لاد میں سے حضرت سیّدنا ومولانا نبی کریم رؤف ورحیم ؐ ہیں‘ جبکہ عدی کی اَولاد سے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ ہیں۔
جب رسولِ کریم رؤف ورحیم ؐ نے اِعلانِ نبُوت فرمایا تو اُس وقت امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ کی عمر ۲۴سال تھی ۔ آپ اعلانِ نبوت کے ۶ سال بعد مشرف بہ اِسلام ہوئے۔ آپ کی ذَاتِ گرامی وہ ذَات ہے کہ آپ کے اِسلام قبول کرتے ہی مکہ مکرمہ میںاِسلام کا چرچا ہوا‘ اور مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی۔آپ کا شمارسابقین اوّلین میں ہوتا ہے ۔ آپ عشَرہ مبَشر ہ میں سے ہیں۔ 
حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے: نبی کریم ؐ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا:’’اے میرے اللہ اِسلام کو ابو جہل(عمرو) بن ہشام یا عمر بن خطابؓ کے ذریعے عزّت عطا فرما۔ سو حضرت عمر بن خطابؓ نے صبح ہونے کا انتظار کیااور نبی کریم ؐ کی خدمتِ اَقدس میں صبح سویرے حاضر ہوگئے اور اِسلام قبول فرمایا۔ پھر مسجد میں علی الاعلان نماز اَدا کی گئی‘‘۔حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘ ’’جس نے سب سے پہلے اَپنا اِسلام علی اِلاعلان ظاہر کیا وہ امیر المؤمنین سیّدناعمر بن خطابؓ ہیں ۔ 
حضرت ابنِ سعد نے حضرت صہیب ؓسے روایت کی ہے‘ فرماتے ہیں‘ ’’جب امیر المؤمنین(حضرت سیّدنا)عمرؓ اِیما ن لائے تو اِسلام ظاہر ہوا اور لوگوں کو کھلم کھلا اِسلام کی طرف بلایا جا نے لگااوربیت اللہ شریف کے گرد بیٹھنے‘ خانہ کعبہ کا طواف کرنے ‘مشرکین سے بدلہ لینے اور اُن کا جواب دینے کے قابل ہوئے ۔یہ اِعزاز اللہ تبارک وتعالیٰ نے امیر المومنین (حضرت سیّدنا) عمر بن خطاب ؓکو عطا فرمایا ورنہ رسول کریم رؤف ورحیم ؐ سے بڑھ کر رُعب وغلبے والا مخلوقِ رَبُّ العالمین میں کوئی نہ تھا‘‘۔( تاریخ الخلفاء ص ۹۱۔)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں نے رسولِ کریم ؐ کو فرماتے ہوئے سنا:’’جب میں سو رہا تھا تو میرے پاس دُودھ کاایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا سیرابی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے بچا ہوادُودھ (حضرت) عمر (فاروقؓ ) کو دے دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ آپؐ نے اِس کی تعبیر کیا فرمائی؟ فرمایا: علم!‘‘۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمرؓ کی زبان پر حق جاری ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول کریم ؓ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے (حضرت) عمرؓ کی زبان اور دِل پر حق جاری فرمایا‘‘۔جب جنگِ یمامہ میںمسیلمہ کذاب کے مقابلے اور دیگر جنگوںمیں سات سوحفاظ صحابہ کرامؓ شہید ہوگئے تو امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمرؓ امیرالمؤمنین حضرت سیّدناابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ و قراء حضرات شہید ہوگئے ہیں ۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر اِسی طرح جنگوں میں حفاظِ کرام شہید ہوتے رہے تو یہ ختم ہوجائیں گے اور اِس طرح بہت سا قرآنِ مجید جاتا رہے گا ۔ اُن کا یہ کہنا حفاظتِ قرآنِ مجید کے لئے تھا ۔ آپ نے امیر المؤمنین سیّدناابوبکر صدیقؓ سے تجویز فرمایا کہ میں مناسب سمجھتاہوں کہ آپ قرآنِ مجید کو اَکٹھا کرنے کا حکم فرما دیجئے ۔(اگرچہ قرآنِ مجید سینوں میں ترتیب کے ساتھ جمع تھا تحریری صورت میں یکجا نہیں تھا)
مگر امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے حضرت سیّدنا امیر المؤمنین عمرؓسے فرمایا:۔ ’’ جوکام رسول اﷲؐ نے نہیں کیا تم کیسے کرو گے ؟ (حضرت) عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم یہ اَچھا کام ہے‘‘۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں‘ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمرؓ برابر مجھے اِس کام کے لئے کہتے رہے۔ ’’یہاںتک اﷲتبارک وتعالیٰ نے اِس کام کے لئے میرا سینہ کھول دیا‘‘۔ مجھ کو بھی یہ کام مناسب نظر آیا۔
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا:
حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو (حضرت)عمر بن خطابؓ نبی ہوتے‘‘۔(ترمذی جلد ۲ص ۲۰۹۔)ایک مرتبہ اپنے ایّام خلافت میں سر پر چادر ڈال کر باہر نکلے‘ ایک غلام کو گدھے پر سوار جاتے دیکھا‘ چونکہ آپ تھک چکے تھے اِس لئے اپنے ساتھ بٹھا لینے کی درخواست کی۔ اُس کے لئے اِس سے زیادہ اور شرف کی کیا بات ہو سکتی تھی کہ امیرالمؤمنین اُس کے ساتھ سوار ہوں۔ وہ فوراً اُتر پڑا اور اپنی سواری پیش کی۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ نے کہا میں تمہیں اپنی وجہ سے تکلیف نہیں دینا چاہتا تم جس طرح سوار تھے سوار رہو میں تمہارے پیچھے بیٹھ جائوں گا۔ غرض اِسی حالت میں مدینہ منورہ کی گلیوں میں داخل ہوئے۔ لوگ امیرالمؤمنین کو ایک غلام کے پیچھے بیٹھا دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ ایک دن صدقہ کے اُونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے‘ ایک شخص نے کہا، اے امیر المومنینؓ ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا۔ بولے مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے۔ جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ اُن کا غلام بھی ہے۔ 
آپ کا مقولہ تھا کہ اگر میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کروں اور لوگ مصیبت و اِفلاس میں رہیں تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔ خلیفہ اور امیرالمؤمنین کی حیثیت سے امیر المؤمنین حضر ت سیّدنا عمر فاروقؓ کے جاہ و جلال کا سکہ تمام دُنیا پر بیٹھا ہوا تھا لیکن مساوات کا یہ حال تھا کہ قیصروکسریٰ کے سفراء آتے تھے تو اُنہیں یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ مسلمانوں کا فرمانروا کون ہے؟ درحقیقت امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ نے خود نمونہ بن کر مسلمانوں کو مساوات کا اَیسا درس دیا تھا کہ حاکم و محکوم اور آقا و غلام کے سارے اِمتیازات اُٹھ گئے تھے۔دُنیا طلبی اور حرص تمام بد اَخلاقیوں کی بنیاد ہے۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ کو اِس سے سخت نفرت تھی۔ یہاں تک کہ خود اُن کے ہم مرتبہ حاضرین کو اِعتراف تھا کہ وہ زہدوقناعت کے میدان میں سب سے آگے ہیں۔دوسروں کا محاسبہ اور مواخذہ کرنے سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر بن خطابؓ خود اپنا محاسبہ کرتے ۔
آپ کی شہادت:
ابولولوہ نامی لڑکا ایک دو دھارا خنجرآستین میں چھپا کر مسجد نبوی شریف کے ایک گوشہ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔اَبھی پو نہیں پھوٹی تھی‘ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمرؓ لوگوں کو نماز کے لئے جگاتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے۔ آپ تکبیر نماز سے پہلے فرمایا کرتے تھے صفیںسیدھی کرلو ! یہ سن کر ابو لولو ہ صف میںآپ کے بالکل مقابل آکھڑا ہوا اورفوراً ہی آپ کے شانے اور پہلؤ پرخنجر سے دووارکئے جس سے آپ گر پڑے۔ اِس کے بعد اُس نے اور نمازیوں پر حملہ کیا اور تیرہ اَفراد کو زخمی کردیا ۔ اِس حال میں جب کہ وہ لوگوں کو زخمی کر رہا تھا ایک عراقی نے اُس پر کپڑا ڈال دیا(تاکہ وہ اُلجھ جائے اور اُس کو پکڑلیا جائے ) جب ابو لولوہ اُس کپڑے میں اُلجھ گیاتو اُس نے اُسی وقت خود کشی کر لی۔آپ پر مسجد نبوی شریف کے محراب شریف میں نمازِ فجر کے وقت ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ھ؁ کو خود کش حملہ کیا گیا اور یکم محرم الحرام بروز اتوار آپ شہید ہوئے ۔ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت صہیب ِ رومیؓ نے پڑھائی اور اِسی دن آپ کو نبی کریم رؤف ورحیمؓ کے پیارے یارِ غار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ نے تریسٹھ سال عمر پائی۔

ای پیپر دی نیشن