میاں صاحب یونہی منہ کا ذائقہ بدل رہے ہیں

کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا لکھا جائے۔ اپنے پرانے کالم پڑھنے لگاکہ کوئی نئی بات، نیا موضوع سمجھ میں آجائے۔
 12فروری 2018ء و شائع ہوا کالم نیا نکور اور آج کے حالات پر فٹ فاٹ محسوس ہوا۔ قند مکرر کے طور پر وہی کالم پیش خدمت ہے۔ وہی عمران خان، وہی میاں برادران، وہی آصف زرداری، ہماری وہی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے اور وہ سچائی کہ حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے۔ 
آپ کا اعتراض بجا ہے۔ ہمارا بھی یہی ایمان ہے کہ جو کافر ہو اس کا کریکٹر ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر بھی آپ یہ خبر جھوٹ سمجھ کر پڑھ لیں۔ بات تبھی آگے بڑھ سکے گی۔ ہندوستانی اداکارہ سوشا نت سنگھ راجپوت نے 15کروڑ ہندوستانی روپوں کے اشتہار میں کام کرنے کی پیشکش ٹھکرا دی۔ یہ اشتہار رنگ گورا کرنے والی کریم کے بارے میں تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی جلد دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور بطور اداکاریہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کوئی جھوٹا پیغام لوگوں تک نہ پہنچائیں۔ لیکن اتفاق سے ایسی سچائی اور محبت ہمارے سیاستدانوں میں بالکل موجود نہیں۔ ہمارے تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ اب ہر اس شخص کو اپنا گھر اور ذاتی چھت دیں گے جس کے پاس رہنے کو اپنا مکان نہیں اور وہ کرایہ کے مکان میں رہنے پر مجبور ہے۔ وہ ان مکانات کے مالکانہ حقوق کے بدلے انتہائی کم رقم بطور قسط مقرر کریں گے تاکہ جس طرح کوئی شخص اپنے کرایے کے مکان کا کرایہ ادا کرتا ہے اسی طرح وہ شخص کوئی اضافی رقم ادا کئے بغیر وہی کرایہ کی رقم بطور آسان قسط جمع کروا کر مکان کی ملکیت کا حقدار بن سکے۔ لیکن اے پاکستان کے بے گھر لوگو! تمہیں اس خوشخبری پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسا میاں نواز شریف تبھی کر سکیں گے جب وہ چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہونگے۔ غالباً انہیں اپنا چوتھی بار منتخب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ اسی لئے وہ ایسے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ ورنہ اپنی تینوں وزارت عظمیٰ کے ادوار میں ان کے منہ سے ایسی کوئی آواز کبھی نہیں نکلی تھی۔ اسی لئے ہم بھی اس شاعر کی طرح یہ بدگمانی رکھنے پر مجبور ہیں:
میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا 
کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے 
جڑانوالہ کے مسلم لیگی جلسہ عام میں میاں نواز شریف کے اس اعلان پر بہت سے کالم نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ کالم نگار ہارون الرشید کے مطابق ہماری 22کروڑ کی آبادی میں 70%لوگ افلاس میں جیتے ہیں۔ ایک کروڑ مکانوں کی کمی ہے۔ اس دعویٰ کی تکمیل تبھی ممکن ہے جب کئی سال کیلئے اگر امریکہ اور چین اپنے تمام تر ترقیاتی فنڈز میاں شریف کے فرزند کو سونپ دیں، چارہزار بلین ڈالر۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام بے گھر پاکستانیوں کی بے گھری کا علاج اتنا مشکل بھی نہیں جتنا جنا ب ہارون الرشید سمجھے بیٹھے ہیں۔
 ہماری ساری روداد محض اتنی ہے کہ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے۔ پاکستان میں غربت اور بے گھری کی کئی وجوہات ہیں۔ اس لمبی فہرست میں بد انتظامی سے لے کر بدعنوانی تک بہت کچھ شامل ہے۔ ان میں سے ایک اہم وجہ خراب حکمرانی بھی ہے۔ خراب حکمرانی کا شکار حکومتیں ملک میں موجود وسائل کو بڑی بے دردی سے ضائع کرتی ہیں۔ وسائل کا غلط اور ناجائز استعمال کرتی رہتی ہیں۔ پھر نئے وسائل کی پیدائش یا تلاش میں ناکام بھی رہتی ہیں۔ کچھ انسانی ضرورتیں ایک انسان کا بنیادی حق ہیں۔ ان بنیادی ضروریات میں تعلیم، صحت، روٹی، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔
سر چھپانے کے لئے ایک چھت، خوراک اور کپڑے کی طرح کی ہی لازمی ہے۔وسائل کے غلط استعمال میں وہ تمام سرکاری اداروں کی زمینوں کی انتہائی مضحکہ خیز حد تک کم قیمت پر لیز بھی شامل ہے۔ کالم نگار کو یاد پڑتا ہے۔ ایک مرتبہ لاہور CNAکے اجلاس میں جنرل ظہیر الاسلام عباسی آئے۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کے دور میں ملک میں مارشل لاء لگانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ پھر انہیں سزا بھی ہوئی اور انہوں نے بھگتی بھی۔ وہ ہمیں بتانے لگے کہ اگر میں مارشل لاء لگانے میں کامیاب ہو جاتا تو میں نے اپنی پہلی نشری تقریر میں ملک بھر میں تمام لیزیں ختم کر دینی تھیں۔ مسلم اوقاف، غیر مسلم اوقاف، میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسل، جنگلات، ریلوے اور ایسے تمام سرکاری اداروں کی بہیش قیمت زمینیں بہت معمولی کرایہ پر با اثر افراد کے قبضہ میں ہیں۔ ان پر تمام تعمیرات بحق سرکار ضبطی کا حکم نامہ جاری ہونا تھاکیونکہ انہوں نے اس زمین سے بہتیرے فائدے حاصل کر لئے ہیں،تعمیرات کی مالیت سے کہیں بڑھ کر۔ 
اسلامی فقہ میں ایک علماء کا بھولا بسراقانون حجر بھی موجود ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست اپنے کسی شہری کو حلال ذرائع سے کمائے ہوئے رزق حلال کو ایسے استعمال میں لانے سے روک سکتی ہے جس سے دیگر شہریوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ یورپ کے چند ممالک میں یہ سننے میں آیا ہے کہ آپ وہاں کسی ہوٹل میں بیٹھے اپنی بھوک سے زیادہ کھانا نہیں منگوا سکتے۔ اگر آپ کا کھانا بچ جائے تو آپ کو اس کے ضیاع کا جرمانہ بھی بھرنا پڑتا ہے۔
 ہمارے ہاں تو روایتی مڈل کلاس طبقہ اس بچے کھچے کھانے کو پیک کروا کر ساتھ لیجانا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ رہائش کی بنیادی انسانی ضرورت کا ادراک پاکستان میں سب سے پہلے بھٹو نے کیا تھا۔ انہوں نے دیہاتوں میں بے زمین کسانوں کو رہائشی پلاٹ مہیا کئے۔ گاؤں میں بے زمین کسان شاملات دیہہ میں حصہ دار نہیں ہوتے لیکن بھٹو کے بہت سے انسانی بہبود کے کام ادھورے رہ گئے اور ملک میں ضیاء الحق کا اسلامی نظام آگیا۔ ہمارے بے گھر لوگوں کے مسئلہ کے حل کیلئے ہمیں امریکہ اور برطانیہ سے چار ہزار بلین ڈالرنہیں چاہئیں۔ ہمیں اپنی بے گھری دور کرنے کیلئے کوئی زمین امپورٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں، ہمارے پاس وافر وسائل موجود ہیں صرف چند اقدامات سے یہ مسئلہ بآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اقدامات کون کریگا؟ پورے ملک میں ایک ہی تجارت رہ گئی ہے اور یہ پلاٹوں کی خرید و فروخت کی ہے۔
 پچھلے دنوں قائد اعظم لائبریری لاہور میں تیسرے ’’سٹی ڈائیلاگ‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس مکالمہ میں یہ مسئلہ زیر بحث تھاکہ کیسے ایک عام آدمی اپنا گھر خود بنا سکتا ہے؟ کالم نگار وہاں موجود نہیں تھا۔ اس خبر کے اخبارات کے حوالے سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سستے مکانات کی تعمیر کا معاملہ ہے۔ گھر کچا، مٹی اور گھاس پھونس سے بھی بن سکتا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ رہائشی پلاٹ کا حصول ہے۔ تمام پرائیویٹ رہائشی سکیموں حتیٰ کہ سرکاری رہائشی سکیموں میں بھی پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت تیس لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔ پھر پوش علاقوں میں پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پندرہ بیس ہزار روپے ماہوا ر کمانے والوں کو چھوڑیں، یہ چالیس پچاس ہزارکمانے والوں کی دسترس سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں اب ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جہاں عوام اپنے اہم شہری مسائل پر بات چیت کر سکیں اور ان کا بہتر حل تلاش کر سکیں۔ یہ مضمون اب سیاسی جماعتوں کے نصاب سے باہر ہو چکا ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے ہی عام آدمیوں کی بے گھری کا قصہ چھیڑا ہے۔ ورنہ ان دنوں انہیں صرف اپنی پڑی ہوئی ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن