عدالتوں میں مقدمات کے انبار

30 جون تک سپریم کورٹ میں 58 ہزار 479 مقدمات فیصلوں کے منتظر تھے۔ ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف 31 ہزار 944 اپیلیں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کی منتظر ہیں۔ ہائی کورٹس احکامات کے خلاف فوجداری اپیلوں کی تعداد 10 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 ہونی چاہیے۔ لگ بھگ ستائیس 28 سال قبل یہ تعداد مقرر کروانے میں سپریم کورٹ کی طرف سے بڑی جدوجہد کی گئی تھی۔ آج یہ تعداد پوری ہے۔ مقدمات کے انبار اور فیصلوں کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد کم پڑ چکی ہے۔ 16 سے 30 جون کے درمیان 479 نئے مقدمات دائر ہوئے جبکہ 201 مقدمات نمٹائے گئے مگر عدلیہ اور بارز کی طرف سے ججوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس میں بھی زیر التوا مقدمات کی تعداد کچھ کم نہیں۔ کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کی اعلیٰ اور نچلی عدالتیں 21 لاکھ 44 ہزار زیر التوا مقدمات کے ایک بڑے بیک لاگ سے نمٹ رہی ہیں۔ صورتحال آج بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ عدالتی حلقے ہی بتاتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر نا انصافی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کتنے لاکھ سائلین انصاف اور ناانصافی کے دو راہے پر کھڑے ہیں۔ آج پاکستان کی عدلیہ کا عالمی رینکنگ میں 139ممالک میں 130 واں نمبر ہے۔ درجہ بندی کرتے ہوئے یقینی طور فیصلوں کے معیار کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی بھرمار کی وجوہ میں بادی النظر میں سیاسی نوعیت یا سیاستدانوں سے متعلق مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سماعت کے لیے مقرر کرنا بھی شامل ہے۔ ہائی کورٹس خصوصی طور پرلوئر کورٹس میں ججوں کی تعداد پوری نہیں ہے۔ عدالتیں قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ ہارنے والا فریق اگلی کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے۔ عدالتوں میں ججوں کی تعداد پوری کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے مصالحتی یا ثالثی عدالتوں کے قیام کی بھی ضرورت ہے تاکہ فریقین تصفیہ ہونے پر اگلے پلیٹ فارم پر جانے کی بجائے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن