تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری

Jul 08, 2024

اداریہ

پاکستان اس وقت جن مشکل حالات میں پھنسا ہوا ہے ان سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر ایسے وسائل تلاش کیے جائیں جو ہماری توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ اس سے ایک طرف ہم زرِ مبادلہ بچانے کے قابل ہوں گے تو دوسری جانب خود انحصاری سے ملک اور اس میں بسنے والے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا جو آگے چل کر ریاست اور معیشت دونوں کو مستحکم بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔ اس کام کے لیے محنت اور سرمایہ تو درکار ہے ہی لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اس حوالے سے نہ صرف سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ اس سلسلے میں ملک کے اندر اور باہر موجود ایسے افراد اور اداروں کے ساتھ رابطے بھی بڑھا رہے ہیں جو مقامی سطح پر تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔
پٹرولیم اور گیس کی تلاش و پیداواری شعبے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کمیٹی قائم کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس شعبے میں کام کرنے کرنے والی کمپنیوں کو آف شور ذخائر ڈھونڈنے کی دعوت دی ہے جبکہ پٹرولیم اور گیس کی تلاش و پیداواری کمپنیوں نے آئندہ تین سال میں پاکستان میں5 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ شہباز شریف سے پٹرولیم اور گیس کے شعبے کی تلاش و پیداواری کمپنیوں کے وفد نے ملاقات کی جس میں بتایا گیا کہ پٹرولیم اور گیس کی پاکستان میں تلاش کے لیے 240 جگہ کھدائی کی جائے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں مقامی سطح پر تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش ہماری اولین ترجیح ہے۔ مقامی ذخائر کی پیداوار سے پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ بچے گا اور عام آدمی کے لیے ایندھن اور گیس سستے ہوں گے۔ 
 مذکورہ ملاقات کے علاوہ وزیراعظم نے ہفتے کے روز اپنے حالیہ دورۂ چین میں طے پانے والے تعاون کے معاہدوں و مفاہمتی یادداشتوں پر عمل درآمد کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ان معاہدوں و مفاہمتی یادداشتوں پر عمل درآمد میں کسی بھی قسم کا تعطل برداشت نہیں کیا جائے گا اور ان پر عمل درآمد کی خود میں نگرانی کروں گا۔ چین سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات، معدنیات وکان کنی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان شعبوں میں پاک چین تعاون کے فروغ سے معاشی ترقی، علاقائی روابط کی مضبوطی اور دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چین دنیا کی ایک مضبوط معیشت بن کر ابھرا ہے، پاکستان چین کی ترقی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
اس موقع پر بریفنگ کے دوران اجلاس کو بتایا گیا کہ حال ہی میں چینی جوتا ساز کمپنیوں کے ایک وفد نے پاکستان میں اپنے کارخانے منتقل کرنے کے حوالے سے پاکستان کا دورہ کیا ہے، اس شعبے میں چینی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں 5 سے 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی استعداد موجود ہے۔ مزید برآں، زرعی شعبے کی12 معروف چینی کمپنیاں رواں برس پاکستان میں منعقد ہونے والے فوڈ اینڈ ایگری ایکسپو میں بھی بھرپور حصہ لیں گی۔ وزیراعظم نے زرعی شعبے میں جدید تربیت کے لیے پاکستان سے ایک ہزار طلبہ کو سرکاری وظیفے پر چین بھیجنے کے حوالے سے پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر چین بھیجا جائے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کے دورۂ چین کے دوران طے پانے والے معاہدوں کے نتیجے میں100 سے زائد چینی کمپنیاں پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں کاروبار و سرمایہ کاری کے لیے رابطے میں ہیں۔
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ چین ہماری معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے ہماری مدد کررہا ہے لیکن اس سلسلے میں کچھ کام ہمارے کرنے کے ہیں جو ہمیں بہت سنجیدگی سے کرنا ہوں گے۔ ان میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کریں اور اس کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کو اتنا بہتر بنائیں کہ بیرونِ ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے پاکستان آنے والے افراد اور ادارے خود کو غیر محفوظ محسوس نہ کریں۔ وزیراعظم نے اسی ضرورت کو سمجھتے ہوئے واپڈا کو داسو اور دیامر بھاشا پر چینی باشندوں کی سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لیے سیف سٹیز کے قیام کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ان منصوبوں کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
پاکستان کا قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہونا ایک حقیقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن نااہلی اور ذاتی مفادات کے تحفظ پر غیر ضروری توجہ نے نہ تو ان وسائل تک رسائی کو ممکن ہونے دیا اور نہ ہی ملک کے مسائل حل ہونے دیے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت بہت سے دوست ممالک پاکستان کی مدد کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ وہ اس سلسلے میں ہم سے زیادہ سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم اگر واقعی اپنے ملک اور معیشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں توہمیں سیاسی استحکام اور امن و امان کے قیام سمیت وہ تمام اقدامات کرنا ہوں گے جو بیرونی سرمایہ کاروں کو تحفظ کا احساس دینے کے لیے ضروری ہیں۔

مزیدخبریں