(نسیم الحق زاہدی)
پی ٹی آئی کا ایبسلوٹلی ناٹ کا سفر سائفر سے ہوتا ہوا امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف قرارداد کی منظوری تک آپہنچا ہے۔جس کے تحت اب امریکی کانگرس میں قرارداد منظور کراکے اور امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے درفنطنیاں چھوڑ کر پاکستان کے سیاسی انتخابی سسٹم کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان کے بعد سینیٹ میں بھی عمران خان کے حق میں قرارداد لانے کی منصوبہ بندی ہو گئی ہے۔ماضی میں امریکہ پر حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگانے والی پی ٹی آئی اس قرار داد کاخیر مقدم کرتی نظر آئی۔افسوس! امریکی غلامی سے نجات کا نعرہ لگا کر نوجوان نسل کو بیوقوف بنانے والی پی ٹی آئی میں پاکستان مخالف قرارداد کی منظوری پر جشن کا سماں ہے۔یعنی تحریک انصاف یہ کریڈٹ لے رہی ہے کہ پاکستان کے خلاف یہ قرار داد ان کی کاوشوں کے نتیجے میں منظور ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کو نسی ملک سے محبت نبھائی جا رہی ہے؟۔پاکستان مخالف بیان بازی پی ٹی آئی اور اس کے بانی چیئرمین کی طرف سے کھیلے جانے والے گھناؤنے کھیل کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ واضح رہے کہ 26 جون 2024 کو، امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان میں انتخابات کی "مکمل اور آزادانہ تحقیقات" کا مطالبہ کیا۔قرارداد کی حمایت میں 7 کے مقابلے میں 368 ووٹ آئے۔یہ قرارداد عمران خان کے حامی یہودی ارکان نے پیش کی تھی۔سوال یہ ہے کہ امریکی کانگریس یا اس معاملے کے لیے امریکی انتظامیہ کو کیا حق ہے کہ وہ ایسے بیانات جاری کرے، یہ ایک سپر پاور کی غنڈہ گردی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جانب قومی اسمبلی نے امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظورکرلی تاہم سنی اتحاد کونسل نے مخالفت کی۔قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں کروڑوں پاکستانیوں نے ووٹ دیے ہیں اور امریکی قرارداد مکمل طور پر حقائق پر مبنی نہیں۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی گرفتاری اور ان کے خلاف زیر التوا مقدمات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور اس کی عدالت نے اس کے آئین اور قوانین کو نافذ کیا اور اسی کے مطابق فیصلے کئے۔بدقسمتی سے معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ جبری حراستوں پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے بھی پاکستان پر سخت الزامات عائد کیے اور بغیر کسی تمہیدکے کہا کہ عمران خان کی نظربندی من مانی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ جس پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی سزا یافتہ قیدی کے طور پر جیل میں ہیں۔ انہیں آئین پاکستان اور قوانین کے مطابق تمام حقوق حاصل ہیں۔پی ٹی آئی کے بانی کو عدالتوں کی جانب سے بہت سے معاملات میں جو ریلیف دیا گیا ہے اس سے عدلیہ کی جانب سے ان کے مقدمات کی شفاف اور منصفانہ سماعت کا اظہار ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آئین، قانون اور بین الاقوامی اصولوں کے دائرے سے باہر مطالبات کرنا جانبدارانہ اور غیر منصفانہ ہے۔تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی اور بھارتی لابی نے درپردہ اس قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ قرار داد اسرائیلی، بھارتی لابی اور تحریک انصاف کی مشترکہ کاوش ہے۔ اس قرارداد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ کے ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔ کیونکہ اس وقت امریکہ میں انتخابی مہم عروج پر ہے اوراس موقع پر دونوں جماعتیں ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار سے نکلنے کے بعد امریکا میں متعدد لابی فرموں کی خدمات بھی لی ہیں اور ان لابی فرموں نے امریکی کانگریس اور چند سابق اہلکاروں سے عمران خان کے حق میں بیان بھی دلوائے ہیں۔یہ مقامِ افسوس ہے، مقامِ شرم ہے، مقامِ خوشی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی قرار داد کشمیر و فلسطین کے حق میں کیوں نہیں آئی؟ IMF کے خلاف کیوں نہیں آئی؟ پاکستان کی غریب عوام کے حق میں کیوں نہیں آئی؟۔ در حقیقت یہ ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلامداخلت ہے اور جمہوریت کے فروغ کے آڑ میں بعض مذموم مقاصد کے لیے دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔چنانچہ وطن عزیز کو اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کے لیے ایک جارحانہ سفارتی کارروائی کی بھی ضرورت ہے۔حیرت تو یہ ہے کہ قرار دادکی بھاری اکثریت سے منظور ی اس ملک میں ہوئی ہے جس کے 2016ء اور2020ء کے انتخابات میں بے ضابطگیوں پر نظر ڈالیں تو ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن دونوں نے ہی الیکشن میں غیر ملکی مدا خلت کا معاملہ اٹھا یا تھا۔ مزید برآں اپریل 2022 ء میں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے فوراً بعدعمران خان نے کہا کہ ان کی برطرفی میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما / سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی جہاں ان پر ریاستی راز افشا کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔بعدازاں 3 جون 2024 کو، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بری کر دیا۔ لیکن، بدنام زمانہ سائفر کیس نے پاکستان میں جمہوری عمل کو بہت نقصان پہنچایا جس نے ریاست میں متعدد سیاسی، اقتصادی اورسیکورٹی خطرات کو جنم دیا جو کہ 10 اپریل 2022 ء سے پہلے بحالی کی جانب گامزن تھے۔ 9 مئی 2022 ء کو اسلام آباد میں عدالت کے احاطے سے خان کی بعد ازاں گرفتاری نے سیاسی افراتفری، اتار چڑھاؤ اور تحریک کو جنم دیا۔ پاکستان کے دشمنوں کی جانب سے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان دراندازی پیدا کرنے کے لیے ملک میں ردعمل کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔
عوام کے دلوں میں اپنی ہی فوج کے خلاف بغاوت کا زہر بھر دیا گیا۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی عدت کیس میں بر یت کا امکان ہے۔اس کے علاوہ عمران خان پر کسی بھی کیس میں گرفتاتری عمل میں نہیں لائی گئی۔توشہ خانہ کیس میں سزا معطل ہو چکی ہے۔اگر عمران خان رہا ہو جاتے ہیں تو ملکی صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی؟کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔