اس مرتبہ حکومت اور فوج ہر دو سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ان کو یہ احساس ہے یہ جن بوتل سے باہر آکر اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ اگر اس کو واپس بوتل میں بند نہ کیا گیا تو یہ سب کو ہڑپ کر جائیگا۔ فوج کی مینگورہ اور دوسرے مقامات پر کامیابیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سے قبل فوج اس معاملہ میں سنجیدہ نہ تھی بلکہ دو تین ماہ پہلے تک صوبہ سرحد کے کئی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ فوج سوات میں حالات کو سدھارنا ہی نہیں چاہتی اور اس سلسلے میں یہ سوال اٹھائے تھے کہ اگر فوج دہشت گردوں کو ختم کرنا چاہتی تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ فوج کی چیک پوسٹ سے ایک دو کلومیٹر کے فاصلہ پر طالبان کی چیک پوسٹ ہو اور فوج اس کو برداشت کرے؟ بہرحال اس مرتبہ افواجِ پاکستان اپنا کام دلجمعی سے کر رہی ہیں۔آپریشن کے دوران سویلین ہلاکتوں سے بچنے کیلئے عوام کو سارے علاقہ میں سے نکال لیا گیا ہے اور یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں اپنے عزیزوں کے ساتھ اور کیمپوں میں بسراوقات کر رہے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہے اور وہ یہ کہ میدان جنگ سے دور ہونے کی وجہ سے کم از کم یہ لوگ محفوظ ہیں، ورنہ ان میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی تھی۔ ان کو اپنے گھروں سے نکلنے کا فائدہ تب ہوسکتا ہے اگر یہ جلدازجلد اپنے وطن واپس لوٹائے جاسکیں اور وہاں امن و امان سے رہ سکیں۔ اگر اس وقت آپریشن کو بند کیا جاتا ہے تو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ اپنا گھنائونا کاروبار دوبارہ شروع کر دینگے۔ اس لئے ساری قوم کو افواجِ پاکستان کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے، البتہ فوج سے یہ مطالبہ ضرور جاری رہنا چاہئے کہ وہ سویلین ہلاکتوں کی کم از کم تعداد کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پچھلے دنوں لاہور میں ایک شہید فوجی افسر کے جنازے پر سویلین افراد میں سے شاذونادر ہی کوئی شخص پہنچا تھا ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ سویلینز کی بڑی تعداد میں شمولیت سے فوج کے حوصلے بلند ہونگے اور وہ اپنا کام زیادہ بہتر طریقہ سے سرانجام دے سکے گی۔ایک دوست نے جو کہ سوات سے ہو کر آئے ہیں یہ بتایا کہ سوات کے متاثرین دہشت گردوں کے سخت خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ فوج جلدازجلد ان کا قلع قمع کرے۔ اسی طرح مسٹر سلیم صافی نے لکھا ہے کہ ’’مالاکنڈ کے لوگوں کو یہ سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ ان کی کسمپرسی کی حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ میں نے ان میں سے ہزاروں کے خیالات سنے ہیں۔ وہ جتنا قصوروار حکمرانوں او جرنیلوں کو سمجھتے ہیں اس سے دو گنا اپنی بدبختی کا ذمہ دار طالبان کو گردانتے ہیں۔ کئی مذہبی لیڈر یہ سمجھ رہے ہیں کہ طالبانائزیشن اسلامی انقلاب کی شروعات ہیں اور یہ کہ اب تمام پختون علاقہ ان کے زیراثر آجائیگا۔ یہ ان اصحاب کی خام خیالی ہے مجھے اس علاقہ میں سیکولر اور مذہب مخالف جذبات کا غلبہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ عین ممکن ہے یہاں پر داڑھیاں منڈوانے کیلئے اتنی ہی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملی جتنی افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد دیکھنے میں آئی تھیں۔ پختونوںکی خواتین کے سکول جلا کر ان کو گھروں میں نظربند کر کے مذہب کے نام پر ان سے اتنی زیادتیاں کی گئی ہیں کہ وہ ردعمل میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔اس سلسلے میں یاد رہے کہ قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے لوگ مذہب سے اس وقت متنفر ہوگئے تھے جب عیسائیوں کے مختلف فرقوں نے مذہبی جنگوں میں ایک دوسرے کے لاکھوں افراد قتل کئے اور نوجوان عورتوں کو چڑیلیں قرار دے کر جلانا شروع کر دیا۔ ہم دراصل یورپ کی صدیوں پرانی تہذیب کو اس خطہ میں دہرا رہے ہیں۔ فوجی آپریشن کی کامیابی صرف عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ ہر قسم کی لاقانونیت اور غنڈہ گردی کے خلاف ہوگی۔فوجی آپریشن کی کامیابی کے فوائد کو صرف ایک چیز مٹی میں ملا سکے گی اور وہ یہ کہ اگر حکومت متاثرین کی دیکھ بھال خاطر خواہ طریقہ سے نہ کر سکی۔ غیرممالک سے آنے والی کئی ارب ڈالر یعنی ہزاروں کروڑ روپے کی امداد کو فوری طور پر متاثرین کی حاجات رفع کرنے پر صرف کرنا ضروری ہے۔ غیرممالک سے خطیر رقوم حاصل کرنے کے بعد بھی متاثرین کی خاطرخواہ رہائش‘ خوراک‘ لباس اور آخرکار اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد کرنے میں کوئی کمی رہ گئی تو متاثرین کے جذبۂ حب الوطنی پر بھی زد پڑے گی۔ سوات اور چکدرہ میں انٹرمیڈیٹ کے سال اول اور دوئم کے 60,000 طلباء کے امتحانات شروع ہی ہوئے تھے تو ان کو نقل مکانی کرنی پڑ گئی۔ صوبہ سرحد کا محکمۂ تعلیم ان کے فوری امتحانات کروا کر ان کا ایک سال بچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا عذر قبول نہیں ہوگا۔ جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے سے پوری نسل کا ایک سال بچ سکتا ہے۔طلباء اور ان کے والدین بھی محسوس کرینگے کہ قوم کی ہمدردیاں کوششیں انکے ساتھ ہیں۔کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ ماضی میں فوجی آپریشن ناکام ہوئے اسلئے اس مرتبہ بھی آپریشن شروع نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تو عرض یہ ہے کہ موجودہ حالات ان وقتوں کی صورتحال سے بہت مختلف ہیں۔ ماضی کی بلوچستان میں بغاوتوں کے دوران شدت پسند پہاڑوں کا رخ ضرور کرتے تھے لیکن وہ نہ تو لوگوں کے سر قلم کرتے تھے اور نہ ہی سکولوں کو بارود سے اڑاتے تھے۔ اسی طرح وہ خواتین کو گھروں میں نظربند نہیں کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے بلوچستان کے متعدد اضلاع کو ’’فتح‘‘ کر کے اپنی حکومت کبھی نہیں بنائی تھی۔ یہاں تو حالات ہی مختلف ہیں اور آپریشن کے علاوہ ان اضلاع میں حکومت کی عملداری بحال کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔البتہ حکومت اور قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ متاثرین کیلئے وصول ہونے والی رقوم کی ایک ایک پائی ان پر ہی وصول ہو اور خوردبرد نہ ہو۔
ماضی کے اورموجودہ فوجی آپریشن میں فرق
Jun 08, 2009
اس مرتبہ حکومت اور فوج ہر دو سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ان کو یہ احساس ہے یہ جن بوتل سے باہر آکر اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ اگر اس کو واپس بوتل میں بند نہ کیا گیا تو یہ سب کو ہڑپ کر جائیگا۔ فوج کی مینگورہ اور دوسرے مقامات پر کامیابیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سے قبل فوج اس معاملہ میں سنجیدہ نہ تھی بلکہ دو تین ماہ پہلے تک صوبہ سرحد کے کئی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ فوج سوات میں حالات کو سدھارنا ہی نہیں چاہتی اور اس سلسلے میں یہ سوال اٹھائے تھے کہ اگر فوج دہشت گردوں کو ختم کرنا چاہتی تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ فوج کی چیک پوسٹ سے ایک دو کلومیٹر کے فاصلہ پر طالبان کی چیک پوسٹ ہو اور فوج اس کو برداشت کرے؟ بہرحال اس مرتبہ افواجِ پاکستان اپنا کام دلجمعی سے کر رہی ہیں۔آپریشن کے دوران سویلین ہلاکتوں سے بچنے کیلئے عوام کو سارے علاقہ میں سے نکال لیا گیا ہے اور یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں اپنے عزیزوں کے ساتھ اور کیمپوں میں بسراوقات کر رہے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہے اور وہ یہ کہ میدان جنگ سے دور ہونے کی وجہ سے کم از کم یہ لوگ محفوظ ہیں، ورنہ ان میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی تھی۔ ان کو اپنے گھروں سے نکلنے کا فائدہ تب ہوسکتا ہے اگر یہ جلدازجلد اپنے وطن واپس لوٹائے جاسکیں اور وہاں امن و امان سے رہ سکیں۔ اگر اس وقت آپریشن کو بند کیا جاتا ہے تو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ اپنا گھنائونا کاروبار دوبارہ شروع کر دینگے۔ اس لئے ساری قوم کو افواجِ پاکستان کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے، البتہ فوج سے یہ مطالبہ ضرور جاری رہنا چاہئے کہ وہ سویلین ہلاکتوں کی کم از کم تعداد کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پچھلے دنوں لاہور میں ایک شہید فوجی افسر کے جنازے پر سویلین افراد میں سے شاذونادر ہی کوئی شخص پہنچا تھا ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ سویلینز کی بڑی تعداد میں شمولیت سے فوج کے حوصلے بلند ہونگے اور وہ اپنا کام زیادہ بہتر طریقہ سے سرانجام دے سکے گی۔ایک دوست نے جو کہ سوات سے ہو کر آئے ہیں یہ بتایا کہ سوات کے متاثرین دہشت گردوں کے سخت خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ فوج جلدازجلد ان کا قلع قمع کرے۔ اسی طرح مسٹر سلیم صافی نے لکھا ہے کہ ’’مالاکنڈ کے لوگوں کو یہ سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ ان کی کسمپرسی کی حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ میں نے ان میں سے ہزاروں کے خیالات سنے ہیں۔ وہ جتنا قصوروار حکمرانوں او جرنیلوں کو سمجھتے ہیں اس سے دو گنا اپنی بدبختی کا ذمہ دار طالبان کو گردانتے ہیں۔ کئی مذہبی لیڈر یہ سمجھ رہے ہیں کہ طالبانائزیشن اسلامی انقلاب کی شروعات ہیں اور یہ کہ اب تمام پختون علاقہ ان کے زیراثر آجائیگا۔ یہ ان اصحاب کی خام خیالی ہے مجھے اس علاقہ میں سیکولر اور مذہب مخالف جذبات کا غلبہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ عین ممکن ہے یہاں پر داڑھیاں منڈوانے کیلئے اتنی ہی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملی جتنی افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد دیکھنے میں آئی تھیں۔ پختونوںکی خواتین کے سکول جلا کر ان کو گھروں میں نظربند کر کے مذہب کے نام پر ان سے اتنی زیادتیاں کی گئی ہیں کہ وہ ردعمل میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔اس سلسلے میں یاد رہے کہ قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے لوگ مذہب سے اس وقت متنفر ہوگئے تھے جب عیسائیوں کے مختلف فرقوں نے مذہبی جنگوں میں ایک دوسرے کے لاکھوں افراد قتل کئے اور نوجوان عورتوں کو چڑیلیں قرار دے کر جلانا شروع کر دیا۔ ہم دراصل یورپ کی صدیوں پرانی تہذیب کو اس خطہ میں دہرا رہے ہیں۔ فوجی آپریشن کی کامیابی صرف عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ ہر قسم کی لاقانونیت اور غنڈہ گردی کے خلاف ہوگی۔فوجی آپریشن کی کامیابی کے فوائد کو صرف ایک چیز مٹی میں ملا سکے گی اور وہ یہ کہ اگر حکومت متاثرین کی دیکھ بھال خاطر خواہ طریقہ سے نہ کر سکی۔ غیرممالک سے آنے والی کئی ارب ڈالر یعنی ہزاروں کروڑ روپے کی امداد کو فوری طور پر متاثرین کی حاجات رفع کرنے پر صرف کرنا ضروری ہے۔ غیرممالک سے خطیر رقوم حاصل کرنے کے بعد بھی متاثرین کی خاطرخواہ رہائش‘ خوراک‘ لباس اور آخرکار اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد کرنے میں کوئی کمی رہ گئی تو متاثرین کے جذبۂ حب الوطنی پر بھی زد پڑے گی۔ سوات اور چکدرہ میں انٹرمیڈیٹ کے سال اول اور دوئم کے 60,000 طلباء کے امتحانات شروع ہی ہوئے تھے تو ان کو نقل مکانی کرنی پڑ گئی۔ صوبہ سرحد کا محکمۂ تعلیم ان کے فوری امتحانات کروا کر ان کا ایک سال بچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا عذر قبول نہیں ہوگا۔ جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے سے پوری نسل کا ایک سال بچ سکتا ہے۔طلباء اور ان کے والدین بھی محسوس کرینگے کہ قوم کی ہمدردیاں کوششیں انکے ساتھ ہیں۔کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ ماضی میں فوجی آپریشن ناکام ہوئے اسلئے اس مرتبہ بھی آپریشن شروع نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تو عرض یہ ہے کہ موجودہ حالات ان وقتوں کی صورتحال سے بہت مختلف ہیں۔ ماضی کی بلوچستان میں بغاوتوں کے دوران شدت پسند پہاڑوں کا رخ ضرور کرتے تھے لیکن وہ نہ تو لوگوں کے سر قلم کرتے تھے اور نہ ہی سکولوں کو بارود سے اڑاتے تھے۔ اسی طرح وہ خواتین کو گھروں میں نظربند نہیں کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے بلوچستان کے متعدد اضلاع کو ’’فتح‘‘ کر کے اپنی حکومت کبھی نہیں بنائی تھی۔ یہاں تو حالات ہی مختلف ہیں اور آپریشن کے علاوہ ان اضلاع میں حکومت کی عملداری بحال کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔البتہ حکومت اور قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ متاثرین کیلئے وصول ہونے والی رقوم کی ایک ایک پائی ان پر ہی وصول ہو اور خوردبرد نہ ہو۔