-2 بلوچستان میں سونے، تانبے اور دیگر معدنیات کے ذخائر ہیں لیکن بوجوہ ان سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں لالچ اور نااہلی یکجا ہو جائیں وہاں ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ کوئلہ توانائی کے لئے بنیادی ایندھن کا درجہ رکھتا ہے۔ سندھ حکومت کی خود غرضی اور مرکز کی بے بسی کے باعث ہنوز زیر زمین ہے، باہر نہیں آسکا۔ وہ اسٹیل مل جو سابقہ حکومت نے کوڑیوں کے بھاﺅ بیچ دی تھی اب خود کوڑی کی ہو گئی ہے۔ 22 ارب روپے میں بکی تھی تین سالوں میں70 ارب روپے کی مقروض ہے۔ یہی حال PIA ریلوے اور دیگر اداروں کا ہے۔ توانائی کا شدید بحران ہے۔ خیر سے ہماری حکومت ترقی معکوس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یعنی لگے ہوئے کارخانے بتدریج بند کر رہی ہے اور کمشن کے چکر میں نئے مہنگے کارخانے لگانے کیلئے ہاتھ پاﺅں ما رہی ہے۔ غربت، افلاس، بے حسی اور بے کسی نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ہمارے حکمران دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جنہیں بہت جلدی ہے لوٹ مار کا کیوں کہ صرف ڈیڑھ سال باقی رہ گیا ہے۔ اس لئے ہاتھوں سے پاﺅں سے اور حتی الوسع دانتوں سے بھی پیسے پکڑ رہے ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف ایک چیز ہے۔ کل ہو نہ ہو! جن لوگوں نے پانچ سال جیل میں گذارے ہیں وہ اب ایام اسیری میں گزرے ہوئے ہر لمحہ کا حساب انہیں بھیجنے والوں سے نہیں بلکہ اس مظلوم قوم سے لے رہے ہیں۔ دوسری قسم ان سیاستدانوں کی ہے جو اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ زیرلب ایک ہی نعرہ ورد زبان ہے آصف زرداری ، اب میری باری! ہوس اقتدار کچھ اس قدر مچل رہی ہے کہ کبھی بغاوت کی باتیں ہوتی ہیں تو کبھی خونیں انقلاب کے نعرے لگتے ہیں۔ ہر سیاسی جلسے میں پریس کانفرنسوں میں ایک ہی بات تسلسل کے ساتھ کی جاتی ہے۔ میرے دور میں یہ تھا، یہ نہیں تھا، آج اگر میں ہوتا تو ملک بام عروج تک پہنچ چکا ہوتا، رعایا کی پانچوں گھی میں ہوتیں اور سر کڑاہی میں--- وہ کونسا حکمران تھا جس کے دور میں Foreign Exchange Reserves آدھا بلین ڈالر رہ گئے تھے اور ملک دیوالیہ ڈیکلیئر ہونے والا تھا۔ جس نے لوگوں کو بہلا پھسلاکر اربوں ڈالر ملکی بنکوں میں رکھنے کی ترغیب دی اور پھر ایک تاریک رات کو وہ سب بحق سرکار لے لئے گئے۔ جس نے ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کا نعرہ لگا کر ایک کثیر رقم اکٹھی کی لیکن نہ تو قرض اترا اور نہ ملک کی تقدیر بدلی۔
-3انگلستان کے ایک بادشاہ کے وزیر نے بادشاہ کےلئے رقم اکٹھی کرنے کا ایک نادر طریقہ سوچا تھا۔ امیروں کو کہتا اپنی کثیر دولت سے کچھ رقم شاہ کےلئے نکالو۔ غریبوں سے کہتا، تمہارا معیار زندگی دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ تم خرچ کچھ نہیں کرتے، صرف جمع کرنے پر لگے ہوئے ہو۔ سارے ملک میں ”مارٹن لوتھر کا کانٹا“ مشہور ہو گیا تھا جس میں ہر سائز کی مچھلی پھنس جاتی ہے۔ وطن عزیز میں یہ کام ملکوں اور بٹوں کے سپرد کیا گیا ہے۔
-4با ایں ہمہ قصور حکمرانوں کا نہیں، محکوموں کا ہے۔ کتاب اللہ میں صاف لکھا ہے۔ خدا اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ بعض اوقات تو یوں گمان ہوتا ہے جیسے یہ 18 کروڑ مسلمانوں کی قوم نہیں بلکہ محض ایک ہجوم ہے۔ رسالت مآب نے ایک بکھری ہوئی قوم کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا تھا۔ آج ان کے نام لیوا بکھرے بکھرے نظر آتے ہیں۔ ملک کے امیر ترین لوگ انہیں بغاوت کی ترغیب دیتے ہیں لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ پوچھ سکیں جناب والا بغاوت کس کے خلاف کرنی ہے؟ محلوں میں رہنے والے جالب کے انداز میں محلات کے خلاف گیت گاتے ہیں اور یہ ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھتے ہیں۔
نظام الملک نے درست ہی کہا تھا ”شامت اعمال ما صورت نادر گرفت“ نادر شاہ نے محدود پیمانے پر دلی میں قتل عام کرایا تھا۔ ہمارے حکمران ساری قوم کو مفلسی عسرت اور تنگدستی کے Slow Poision کے ذریعے عدم آباد پہنچانا چاہتے ہیں۔ صبح کا کوئی اخبار بھی پڑھ لیں۔ خود کشیوں اور قتل و غارت سے بھرا ہوا ملے گا۔ نادر شاہ اور ہمارے شاہوں میں مماثلت کے باوصف صرف ایک فرق نظر آتا ہے۔ وہ صاف گو تھا‘ اگر دل میں غبار ہوتا تو ہاتھ میں تلوار نظر آتی۔ ہمارے شاہوں کی خوبی یہ ہے کہ دل میں چاہے لاکھ کدورتیں ہوں، ہاتھ میں تلوار نظر نہیں آتی۔ صرف آستینوں میں چھپے ہوئے خنجر ہوتے ہیں۔