پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی سرزمین میں 30 لاکھ سے زائد شہیدوں کا لہو رچا بسا ہُوا ہے۔ اس کے کارکن جو اس وقت خال خال ہم میں موجود ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی مصلحتوں کا شکار ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزر بسر کرتے رہے۔ ریکارڈ اس امر کا شاہد ہے کہ ماضی کی حکومتوں کو اس امر کا احساس دلایا جاتا رہا ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے ممتاز کارکنوں کو بھی شریک اقتدار کریں۔ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں ان کا مخصوص کوٹہ مختص کریں۔ غیر ملکوں میں تعینات کرنے والے سفیروں میں انہیں فوقیت دی جائے۔ اہم امور کے مشیروں اور اداروں کی سربراہی میں انہیں شریک کیا جائے۔ حکومتی ٹاسک فورس ان کی معاونت سے چلائی جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ مخلص ٹیم ہے جس کی حب الوطنی، اہلیت اور عوام دوستی پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی حکومت نے قائداعظم کے ان قافلہ سالاروں کو ان کا مقام دینے کے لئے قابل اعتنا نہ سمجھا۔ حالانکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز موومنٹ کے سربراہ، مجاہد پاکستان، آبروئے صحافت جناب مجید نظامی نے ایک نہایت سنجیدہ اور عہد آفرین نظریاتی ٹیم تشکیل دے کر نظریہ پاکستان کو شب و روز اجاگر کرنے میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں آج ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے روپ میں قائداعظم کے متوالے مسلم لیگی اپنی نمایاں اکثریت سے حکومت سازی کے قابل ہو چکے ہیں لیکن مسلم لیگی دھڑے پوری کوشش کے باوجود تقسیم در تقسیم ہو ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے جلسوں جلوسوں میں نہ تو حضرت قائداعظم کا جھنڈا لہرایا اور نہ ہی مسلم لیگ کا نظریہ پاکستان یا پاکستان کی روح کو نمایاں کیا مگر عوام نے پاکستان کو ووٹ دے کر نظریہ پاکستان کو مستحکم کیا ہے۔ یہ کارنامہ اور مشقت نظریہ پاکستان کی آگہی کا مرہون منت ہے اور قابلِ فخر بھی۔
یہ درست ہے کہ ماضی کی ہر حکومت نظریہ پاکستان، قیام پاکستان اور بانی¿ پاکستان کا نام صرف دکھاوے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے جبکہ عملی طور پر وہ تحریک پاکستان کے کارکنوں کو تیسرے ہی درجے کا شہری تصور کرتی رہی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کی لیلیٰ جھولنے والی حکومتیں اس ملک کی تعمیر کرنے والوں کو اس فاصلہ پر رکھتے رہے ہیں کہ کہیں وہ انہیں اپنے جائز حق اور قربانیاں یاد نہ دلا دیں کیونکہ ق لیگ سمیت ماضی کی ہر حکومت نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں انتھک قربانیاں دینے والوں کو شجرِ ممنوعہ جانتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگا رکھا تھا۔ ایسے میں انہیں کیا معلوم کہ آج جس اقتدار کے وہ مزے لوٹ رہے ہیں وہ کارکنان تحریک پاکستان کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔ یاد رہے تاریخ کے اوراق اس تاریخی ورثے کی بے قدری کو قومی المیہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک سابقہ نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے 172 گولڈ میڈلسٹ (جن میں راقم الحروف کا نام سرفہرست تھا) اِن حضرات کو چند مراعات ابتدائی طور پر بارش کے پہلے قطرہ کے مصداق دینے کا اعلان کیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری کر دیا گیا لیکن پاکستان میں پاکستان بنانے والوں کو شودر ہی تصور کیا جاتا رہا، یہ انداز بھارتی پنڈت چانکیہ کوٹلہ اور میکاولی کے اصولِ حکومت سے ماخوذ ہے۔ اگرچہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے متوالوں کے لئے بھارت میں چند فیصد رقم بجٹ میں مخصوص کر رکھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل راقم نے کینیڈا اپنے نجی دورہ کے دوران سوشل ویلفیئر کی سطح پر بزرگوں کے شیلٹر ہوم اور دیگر سہولتوں کا جائزہ لیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے بزرگوں اور مستحق افراد کا احترام کرنا ان کا ایک فطری جذبہ ہے جو نسل انسانی کے ارتقا میں تاریخی تسلسل کو استوار کر کے ایک معتدل معاشرہ کو وجود میں لانے کے لئے مددگار ہوتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت کے ادوارِ اقتدار میں یہ سوچ بھی غائب ہو گئی تھی کہ اگر قائداعظم کی قیادت میں ہمیں یہ ملک مل ہی گیا ہے تو بحیثیت قوم ترقی کی راہیں کس طرح تراشی جا سکتی ہیں؟ جو حکومت بھی آئی اس کی اعلیٰ قیادت نے اقتدار کے نشے میں اپنے جانثار ساتھیوں کو اپنے راستہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا اور ان کی خدمات کا اعتراف محض ایک گولڈ میڈل کی صورت میں دے کر فارغ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ قوم کے ان محسنوں پر مراعات کے تمام دروازے بند تھے۔ آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جو اپنے محسنوں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 66 سال کے عرصہ دراز میں اسے جس قدر ترقی کر لینا چاہئے تھی وہ اس سے محروم رہا۔ اس کی محض وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی جوانی کی توانائیاں قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان کی جدوجہد میں صرف کر دیں۔ بدقسمتی سے ہم ان کے مشوروں، مشاہدوں اور تجربوں سے محروم رہے اور ان کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔
تحریک آزادی کے ہمارے بزرگ ہماری زندگی میں اس کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں جسے ہم جب چاہیں کھول کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر ہم سیکھنا چاہیں تو ایسی کتابوں کے ہر صفحہ پر ڈھیروں سبق آموز واقعات ملتے ہیں۔ بے شک بزرگ ایسے درختوں کی مانند ہوتے ہیں جو ہماری زندگی میں پریشانیوں کی دھوپ کو اپنے سائے سے ڈھانپ کر ہمیں سکون و آرام پہنچاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہی ہمیں ایسے کام کرنا چاہئیں جس سے ان پاکستان کے متوالوں اور جیالوں کا سربلند ہو تاکہ وہ آئندہ سکون کی نیند سو سکیں جنہوں نے پاکستان کو عالمِ وجود میں لانے کے لئے بے انتہا قربانیاں دیں اور کئی جسموں، گردنوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ واثق امید ہے کہ جناب وزیراعظم نواز شریف اپنی پہلی فرصت میں اس امر کی جانب متوجہ ہوں گے....
اس مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے