خارجہ پالیسی اور ”استحکام“

Jun 08, 2013

فہمیدہ کوثر

مغربی مفکر”گروٹی“ بین الاقوامی قانون کا ماہر اور بانی مانا جاتا ہے، وہ خارجی پالیسی کے استحکام کے لئے ان عناصر کو لازمی گردانتا ہے جس سے ریاستوں میں ایک دوسرے کےلئے احترام اور عزت کا جذبہ موجود ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ یہ مملکتیں بڑے انسانی سماج کی اکائیاں ہیں اور انہیں یکساں حقوق حاصل ہیں اس کے نزدیک مملکتوں کے باہمی تعلقات کو قانون فطرت کے مطابق ہونا چاہئے۔ مملکتیں اپنی علاقائی حدود کے اندر پورے طور سے آزاد، خود مختار اور بااختیار ہوں اور خارجی معاملوں میں بیرونی قوتوں کی ماتحتی سے آزاد ہوں“
گویا جب کوئی مملکت ان عناصر کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے تو ”استحکام“ کا تصور کہیں گم ہو جاتا ہے۔ پاکستان آج اندرونی اور بیرونی چلنجز کا شکار ہے۔ پاکستان کی بقا اور سلامتی کےلئے نہ صرف ان تین عناصر، کرپشن، اقتصادی نظام میں عدم استحکام اور ڈرون حملوں کا سد باب ضروری ہے بلکہ ایک متوازن اور معتدل خارجہ پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمیں ”دوطرفہ اصول“ کے تحت مرتب کی گئی خارجہ پالیسی میں دنیائے عالم پر یہ واضح کرنا ہے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہیں ذاتی مفادات، اور پریشر کے تحت بنائی گئی خارجہ پالیسی کا یہ نقصان سامنے آتا ہے بڑی طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اپنے انداز میں چلانے کی کوشش کی۔ دوستوں اور دشمنوں کے انتخاب پر پابندی لگا دی گئی۔ ایک طرف تو بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر زور دیا جاتا تو دوسری طرف چین سے تعلقات بڑھانے پر سرزنش کی جاتی جبکہ خارجہ پالیسی کے میدان میں مستقل دوستوں اور دشمنوں کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ دشمن بدلتے ہوئے حالات میں دوست بنا لئے جاتے ہیں اور دوست ممالک کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ایک اطالوی دانشور میکاولی نے کہا تھا کہ چھوٹے ممالک کے دوست ان سے جتنا قریب ہوں گے اور ان کے دشمن ان سے جتنا دور ہوں گے چھوٹے ممالک کی اسی میں بھلائی ہے“ پاکستان کے پڑوس میں دوستوںکی تعداد سے دشمنوں سے زیادہ ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں پائیداری دونوں ممالک کے معاشی اور سیاسی استحکام کےلئے نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے لیکن بات وہی ہے کہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان بھارت کی اپنی خارجہ پالیسی کے خلاف ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی پاکستان سے مخاصمت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جب ہم بھارت کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں تو پاکستانی خطرہ بھارت کی خارجہ پالیسی اور اندرونی پالیسیوں کا معمار ہے پاکستان میں چاہے جمہوری دور ہو یا غیر جمہوری دور ہمیشہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر زور دیا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ بھارت کا رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کو نقصان پہچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس وقت جبکہ ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری پر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سفارت کار اور اس کے ڈرائیور پر حملہ چہ معنی دارد؟
بہر حال ایک حقیقت تو یہ واضح ہوتی ہے کہ بھارت کی فطرت میں ”چانکیائی نظریات“ کا عمل دخل اتنا زیادہ ہے کہ امن کی آشا کا راگ الاپتے ہوئے وہ اپنی فطرت کا مظاہرہ کر بیٹھتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالسی کی تاریخ میں ہمیں دو محرکات اہم نظر آتے ہیں ایک تو پاکستان نے اپنے تشخص کو اجاگر کرنے اور دوسرے بھارت کے عزائم کے خلاف تحفظ کیلئے خارجہ حکمت عملی تشکیل دی۔ بھارت کے رویے میں کبھی لچک پیدا نہیں ہوتی۔ اگر بھارت کی خارجہ پالیسی کا مقصد پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی تھا تو پاکستان کا مقصد اس کے ارادوں کی کاٹ تھا۔ بھارت کی خارجہ پالیسی میں جارحیت کا عنصر شامل رہا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے رویے اب مستقل ہو چکے ہیں اور دونوں کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کو آسانی سے تبدیل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
نواز شریف حکومت کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے سنجیدہ امور کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو یا پانی کا تنازعہ یا پھر سر کریک اور سیاچن جیسے مسائل ہوں، دونوں ممالک کی بقا کےلئے ان اندیشوں اور وسوسوں کا قلع قمع بھی ضروری ہے جو بہتر تعلقات کی راہ میں ہمیشہ حائل ہوتے رہے ہیں ۔
ایک مضبوط پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے لیکن بھارت کی پاکستان سے متعلق خارجہ کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ اس وقت ہماری قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایک مربوط اور متوازن خارجہ پالیسی کے ذریعہ باہمی مفاد پر مبنی حکمت عملی اختیار کی جائے اور سنجیدہ مسائل کو سامنے رکھ کر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات کی بہتری میں ملکی سالمیت اور خود مختاری جیسے عناصر کو مدنظر رکھا جائے۔ ڈرون حملے ہماری آزادی اور خود مختاری پر ”Stigma“ ہیں۔ ہمیں امریکی وزیرخارجہ کے اس موقف پر کہ ڈرون حملے جائز ہیں“۔ پر واضح اور دو ٹوک حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کو داخلی اور خارجی مسائل کے حل کےلئے اداروں اور جماعتوں کو اعتماد میں لینا انتہائی ناگزیر ہے۔ چین کے ساتھ بہتر پیمانے پر ہر سطح پر تعلقات میں مضبوطی ضروری ہے۔ ماضی میں پاک چین دوستی کے سلسلہ میں خیر خواہی کے اقدامات ان ممالک کی دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اب جبکہ بھارت فضائی اور بحری برتری میں آگے بڑھ رہا ہے۔ معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھتا ہوا چین پاکستان کےلئے نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔

مزیدخبریں