”شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات“

جو قوم غربت کے مارے لاغر ہو چکی ہے۔ اسے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ چار سال بعد حکومتی کارکردگی کا اندازہ لگے گا۔ حکومت نے قوم کو رزق کی مار دینے کے جو حالات پیدا کر رکھے ہیں اس کے نتیجے میں قوم چار سال تک اپنے حواس برقرار رکھ سکے گی تو حکومت کی کارکردگی جانچ سکے گی۔ اس وقت ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ ہی کے ایک سب سے بڑے دھڑے کے سربراہ ہیں۔ انہیں اپنے اقتصادی ایجنڈے کو بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کے فرمودات کی روشنی میں مرتب کرکے اپنی سرخروئی کا اہتمام کرنا ہو گا۔ حضرت قائداعظمؒ نے 1943ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
”میں یہاں سرمایہ داروں اور زمینداروں کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں جو ہماری وجہ سے ہی پھل پھول رہے ہیں یعنی ایک ایسے نظام کے ذریعے جو انتہائی ناقص اور غلط ہے اور جس نے انہیں اس قدر مطلبی اور مفاد پرست بنا دیا ہے کہ ا کے خون میں عوام کا استحصال رچ بس گیا ہے۔ ہوس اور خودپرستی میں یہ صرف خود فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دیہات میں لاکھوں لوگوں کو دن میں ایک وقت کی پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔ کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ پاکستان کی غرض وغایت اگر یہی ہے تو پھر ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہئے“۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے برادر خورد وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کا نام لے کر کہا کہ میاں شہباز شریف دن رات بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پنجاب کی طرف سے عوام کو فاقہ کشی سے بچانے کیلئے غلطی سے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بات قیمتوں کو بالائی سطح پر رکھ کر کنٹرول کرنے کی نہیں اعتدال اور عوام کی دسترس میں لا کر اسے برقرار رکھنے کا نام کنٹرول کرنا ہے مگر صوبائی حکومت اس سلسلے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ایسے تمام تکلیف دہ حقائق کے علی الرغم ارباب حل وعقد کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی حاصل کرنیوالے بڑے بڑے جاگیردار، زمینداروں اور کارخانہ داروں کی اجناس اور مصنوعات کو زرمبادلہ کمانے کے بہانے برآمد کرنے کی اجازت دے کر اجناس اور مصنوعات عوام کو سہولتیں پہنچانے کے ”دھوکے“ میں بھارت سے درآمد کرنے کی راہ ہموار کی گئی تو یہ اقدام قومی مفاد سے سراسر متصادم ہے۔ عوام تو بھوکے ہیں ہی، وہ پیٹ پر پتھر باندھنا گوارا کر سکتے ہیں مگر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے درآمد ہونے والی اشیا کو استعمال کرنا گوارا نہیں کرینگے حکومت کو اپنے حواریوں، چاپلوسوں اور مفاد پرستوں کیلئے ایسے نفع بخش فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کرنا چاہئے اور تصور پاکستان کے خالق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے اس فرمودہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھیئے۔ ....
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
 ارباب حکومت بے شک تاریخ سے سبق نہ سیکھیں مگر تاریخ کے اوراق پر نظر ضرور ڈالیں۔ انہیں کم از کم یہ معلوم ضرور ہو جائیگا کہ سات سمندر پار سے فرنگی سامراج تاجروں ہی کی صورت میں غیر منقسم ہندوستان کے ساحل پر اترے تھے اور پھر تجارتی تعلقات کی آڑ میں انہوں نے بہادر شاہ ظفرؒ، شیر میسور سلطان ٹیپوؒ اور سراج الدولہؒ کے اقتدار کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ ایک ہزار سال تک جو ہندو قوم برصغیر میں مسلمانوں کی سلطنت میں رعایا بن کر رہی تھی۔ برطانوی (قریباً دو سو سالہ) دور حکومت میں اسے نہ صرف پنپنے کے مواقع میسر آئے بلکہ ہندو بنیوں کے دل میں مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے مذموم عزائم نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کو اکھنڈ بھارت کے روپ میں دیکھنے والی ہندو قوم نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا وہ ہر وقت پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ بھی اسی پاکستان دشمن سازشوں کا حصہ ہے۔ ایسے بدباطن دشمن کے ساتھ کوئی محب پاکستانی تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کی عظیم اکثریت اسی سوچ کے حامل مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ اور ڈاکٹر مجید نظامی اسی مکتب فکر کے سالار اعلی ہیں۔ حکومت کو پاکستان دشمن بھارت سے ایسے تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنے میں ”محتاط“ رہنا چاہئے۔ اسی میں ایوان اقتدار کے مکینوں کی بھلائی کا راز مضمر ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کو ڈاکٹر مجید نظامی کی طرف سے ”محتاط“ رہنے کا مشورہ اسی حوالے سے ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن