برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اتنے درد ناک اور بھیانک ہیں کہ کمزور دل والے تو یہ تصویریں دیکھ بھی نہیں سکتے۔ برما کے مسلمانوں پر یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے اس کے پیچھے ایک طویل اور درد ناک داستان ہے وہ صدیوں پہلے ان علاقے میں آ کر آباد ہوگئے تھے، یہاں پر ان کی حکومت تھی لوگ بہت امن و امان سے اراکان کے علاقے میں رہ رہے تھے مگر ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا کہ بظاہر پرامن نظر آنے والے بدھ بھکشوں نے ان پر اچانک کیا کیا ظلم ڈھانے شروع کر دینے ہیں۔ اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’اپنے دشمن کے مقابلے میں تم بھی اپنے گھوڑے اور دوسرا سامان حرب تیار رکھو۔ دشمن کو دشمنی کرنے کے لیے بس آپ کی کسی کمزوری کا ظاہر ہونا ہی کافی ہے۔ اسی طرح اچانک بدھ بھکشوں نے ان کو کمزور جان کر ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ برمیوں نے اراکان پر قبضہ کیا انہوں نے مختلف قانون بنا کر اس علاقے کے مسلمانوں پر عرصہ حیات ہی تنگ کر دیا، ان سے ان کی جائیدادیں چھین لی گئیں، ان کے کاروبار پر قبضہ کر لیا گیا، ان سے زبردستی کا م لیا جانے لگا، ان کی عورتوں کی عصمت دری کے واقعات عام ہونے لگے۔ یہ سب ظلم چونکہ مسلمانوں پر ہو رہے تھے اس لیے نہ تو مہذب مغرب نے یہاں پر اپنا کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی امریکہ یا کسی دوسرے ملک کو یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آئیں۔ اس میں کسی دوسری قوم کو قصوروار قرار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس ظلم و بربریت کے مسلسل جاری رہنے کی وجہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے ایمانی بھی ہے۔ اصل میں مسلمان بہت صدیوں سے زیرعتاب ہی نظر آ تے ہیں اس کی بنیادی وجہ تو شائد یہی ہیں کہ بہت سے مسلم ملکوں میں شخصی حکمرانی رہی ہے، مسلم حکمران صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کی ہی کوششوں میں لگے نظر آ تے ہیں۔ شریعت کو ان کے درباری علما نے بس ان کے اقتدار کی طوالت کا ذریعہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ تقریباً پچھلی دو صدیاں تو مسلمانوں کے لیے ایک بھیانک خواب کی صورت سے گزرے ہیں اور اب بھی کوئی خاص بہتری کے امکانات نظر نہیں آتے۔ کہیں فلسطین کے مسلمانوں پر ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل ظلم ڈھائے جا رہاہے تو کہیں عراق و ا یران بہت سال ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ کبھی افغانستان کے چند لوگ غیروں کے آلہ کار بنتے ہیں اور امریکہ کو افغانستان پر حملے کا موثر بہانہ دیتے ہیں۔ کشمیر تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی ایک چنگاری کی صورت سلگ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان عرصہ دراز سے مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ برما میں عرصہ دراز تک فوجی حکومت رہی تھی اس دوران وہاں کی افواج نے مسلمانوں پر جتنے بھی ظلم کیے دنیا کے سامنے ان کا ذکر بہت کم ہی آیا۔ کبھی ان کارروائیوں کو نسلی فسادات کا نام دیا گیا تو کبھی برما کا اندرونی معاملہ قرار دے کر اس سارے ظلم و ستم کو پس پشت ڈال دیا جاتا رہا تھا مگر کسی نے بھی ان فسادات کے نام پر بر بریت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ یہ کیسے نسلی فسادات ہیں کہ جہاں صرف ایک ہی مذہب کے لوگ ظلم و جبر کا نشانہ بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ واضح طور پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کے بچوں کو قطار اندر قطار کھڑا کر کے شہید کیا جارہا ہے۔ ان کی عورتوں سے بہت زیادہ بھیاناک سلوک روا رکھا جا رہا ہے، ان کے جسموں کو کاٹ کاٹ کر پھینکا جا رہا ہے، ایسا کوئی ایک بھی ثبوت نہ ملے گا کہ برمی مسلمانوں نے کسی بدھ بھکشوں کو ایسی بیدردی سے قتل کیا ہو۔ ان واقعات کو کسی صورت بھی فسادات نہیں کہا جا سکتا جس میں صرف خون مسلمانوں کا ہی بہہ رہا ہے۔ اگر ایسا ظلم کسی اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو پورا مغربی میڈیا اور ان کی این جی اوز اس ظلم کو دنیا کے سامنے ننگا کرنے کے لیے زمین و آسمان ایک کر دیتیں مگر ہائے افسوس یہ ظلم تو مسلمانوں پر ہو رہا ہے اس پر مسلمان حکمران بھی نہیں بول رہے تو دوسروں سے کیسا گلہ کیا جائے۔ پاکستان کا میڈیا فلمی اداکاروںکی تو لائیو کوریج کرتا ہے، اپنے سیاستدانوں کا تو ہمارا میڈیا کراس ٹاک شوز میں بھرکس نکال دیتا ہے مگر برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اس میڈیا کو شائد نظر ہی نہیں آتے۔ یقیناً اندھی بہری اور گونگی دنیا کے پاس ان تلخ، کڑوے اور انسانیت سوز سوالوں کا کوئی بھی جواب نہیں ہے۔ یہ مظلوم قوم اب ایک ایسی درد و ازیت کا شکار ہے کہ نہ تو یہ برما میں امن کے ساتھ رہ سکتی ہے اور نہ ہی اس کو آزادی سے کسی دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ کسی طرح بچتے بچاتے کشتیوں میں سوار ہو کر بنگلہ دیش یا کسی دوسرے ملک کے ساحل تک پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں سے بڑی بے دردی سے واپس پانی میں مرنے کے لیے دھکیل دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کو یہاں ہونے والا ظلم کیوں نظر نہیں آتا۔ اس وقت صرف سوشل میڈیا ہی ہے جو یہ انسانیت سوز واقعات دکھا کر اقوام عالم کے مردہ ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہا ہے یا پرنٹ میڈیا کچھ حد تک برما کے مسلمانوں کی حالت زار کو بیان کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے سے یہ ظلم و ستم کی داستانیں ہم تک پہنچ رہی ہیں، ابھی تک یہ مسئلہ نہ تو مسلم امہ کے نزدیک کوئی بڑا ایشو نظر آتا ہے اور نہ ہی دیگر ملک اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ اب تک صرف ترک حکومت نے ان کی طرف دیکھا ہے ان پر ہونے والے ظلم کو محسوس کیا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ پوری دنیا رنگ و نسل ,مذہب فرقے کا امتیاز کیے بغیر ان مظلوموں کا درد محسوس کرتے ہوے اٹھ کھڑی ہو مسلم امہ کو کہیں نہ کہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا ایک ایسا مرکزی نظام بنایا جائے جو پوری اسلامی دنیا کے لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرے ، نہیں تو سب ہی باری باری پٹتے آ رہے ہیں اور شائد پٹتے ہی رہ جائیں۔