”غریب دوست بجٹ کی برکتیں؟“

قومی بجٹ کا ہنگامہ ہفتہ بھر سے جاری ہے گویا وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کے ساتھ ہفتہ (Week) منایا جا رہا ہے۔ جدھر دیکھو جناب ڈار ہی دکھائی دے رہے ہیں ۔ اگر اِس مشہور شعر میں ” یار“ کے بجائے ” ڈار“ جڑ دِیا جائے تو اُس کی صُورت کچھ یُوں ہوگی۔

دِل کے آئینے میں ہے ، تصویرِ ڈار
جب ذرا گردن جُھکائی، دیکھ لی
تو معزیز قارئین و قارِیات قومی بجٹ، اُس کے اثرات اور ثمرات کے بارے میں ، مَیں نے جناب اسحاق ڈار سے تصّوراتی انٹرویو کِیا ہے ۔ پڑھیے اور سَر دُھنِیے!
مَیں ” محترم اسحاق ڈار صاحب! مَیں آپ کا بے حد ممنون ہُوں کہ آپ نے قومی بجٹ سے متعلق مجھے تصّوراتی انٹرویو کے لئے وقت دِیا۔
ڈار صاحب” مَیں نے آپ کو وقت کہاں دِیا؟ آپ بغیر اجازت دَر آئے۔ ورنہ میں کھڑے کھڑے آپ کو نکال دیتا۔ اب پُوچھیں جو آپ کو پوُچھنا ہے ۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔“
مَیں آپ نے بتایا بلکہ دعویٰ کِیا ہے کہ ” نئے مالی سال کابجٹ غریب دوست ہے“۔ یہ آپ کیسے ثابت کریں گے؟
ڈار صاحب ” آپ نے ”آفتاب آمد ، دلیل آفتاب“ کی ضرب اُلمثل سُنی ہوگی۔ میرے پاس سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اور ” مفاہمت کی سیاست“ اپنانے کے بعد سینٹ میں بھی مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اور قومی بجٹ منظور کرنے میں اکثریت کا ہی بول بالا ہوتا ہے۔ حزبِ اختلاف کا کیا ہے؟ کبھی کبھی احتجاج اور اجلاس کے بائیکاٹ اور چند ترامیم کے بعد ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔ اُسے بھی ماننا ہی پڑے گا کہ ” بجٹ غریب دوست ہے “ اور سب سے بڑی بات....“
مَیں، سب سے بڑی بات کیا ڈار صاحب؟
ڈار صاحب سب سے بڑی بات یہ کہ آئی۔ ایم۔ ایف اور عالمی بنک کے اعلیٰ افسروں نے یہ سر ٹیفکیٹ جاری کردِیا ہے کہ ” پاکستان کا بجٹ غریب دوست ہے“۔
مَیں لیکن محترم ڈار صاحب! اِن دونوں غیرملکی اداروں کے افسران کو تو پاکستان کے غریبوں کے مسائل کا علم ہی نہیں ہے ۔ پھر وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے نام سے تیار کِیا گیا قومی بجٹ غریب دوست ہے؟
ڈار صاحب ” میرے عزیز بھائی! پوری دُنیا میں ترقی پذیر ملکوں کے لوگوں کے بارے میں اور پاکستان کے بارے میں بھی صِرف یہی دو بین اُلاقوامی ادارے ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہاں کون امیر ہے اور کون غریب اور کب کِسی کو غُربت کی لکیر پھلانگ کر امارت کی لکیر میں داخل ہونا ہے اِس لحاظ سے یہ بات سب کو ماننا پڑے گی کہ ہمارا بجٹ غریب دوست ہے “۔
مَیں اپنے بجٹ کے بارے میں آپ نے غریبوں سے بھی پُوچھا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں ؟
ڈار صاحب۔ ” کیوں نہیں پوچھا؟ پُوچھا ہے ۔ کئی بار پُوچھا ہے وہ سب مانتے ہیں کہ بجٹ غریب دوست ہے “۔
مَیں بائی دی وے آپ کی غریبوں سے کب ملاقات ہوئی؟ اور کِتنے غریبوں سے؟
ڈار صاحب ” اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مَیں نے میاں نواز شریف کی وزارتِ عُظمیٰ کے تیسرے دَور میں تیسرا قومی بجٹ پیش کِیا ہے ۔ میرے سکیورٹی گارڈز ، میرے ڈرائیورز، میرے مالی، میرے باورچی اور دوسرے ملازمین۔ سب کاتعلق غریب طبقہ سے ہے۔ میرے پہلے ،دوسرے اور اب تیسرے قومی بجٹ کے بارے میں مجھے بار بار یہی بتایا کہ ” بجٹ غریب دوست ہے“۔
مَیں لیکن محترم ڈار صاحب! حکومت کی طرف سے فراہم کئے گئے آپ کے ملازمین خاص طورپر سکیوٹی اہلکاروں کی تنخواہیں 13/13 ہزار نہیں بلکہ اُس سے کئی گُنا ہیں اور انہیں زندگی کی دوسری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ یہ لوگ تو غریبوں میں شمار نہیں ہوتے؟
ڈار صاحب” وفاقی وزیر خزانہ آپ ہیں یا مَیں ہوں؟ جب مَیں نے کہہ دِیا کہ میرے تمام ملازمین غریب ہیں تو ، وہ غریب ہیں ۔ اگلا سوال؟“
مَیں ” آپ نے یہ بھی توفرمایا ہے کہ ” پاکستان میں 60 فی صد سے زیادہ لوگ غُربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں “؟
ڈار صاحب ” جی ہاں ، مَیں نے فرمایا ہے ، بار بار فرمایا ہے ۔ دراصل غُربت کی لکِیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں نے اپنی حالت کو بدلنے پر کبھی غور نہیں کِیا۔ مَیں نے پرائمری سکول میں علاّمہ اقبال کا یہ شعر پڑھا تھا ۔ آپ نے بھی پڑھا یا سُنا ہوگا کہ....
خُدا نے آج تک اُس قومی حالت ، نہیں بدلی
نہ ہو جِس کو خیال، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اب مَیں کیا کروں اِس غریب قوم کا؟ مَیں وزیر خزانہ کیا بن گیا کہ سارے غریب غُربا اپنے مسائل کا ذمہ دار مجھے ہی سمجھنے لگے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ میری ” کڑما چاری “ ہے لیکن انہوں نے مجھے میرٹ پر وزیر خزانہ بنایا ہے ۔ اگر وہ مجھے وزیر خزانہ نہ بناتے تو کسی اور کو بناتے اور وہ بھی میری طرح ” غریب دوست بجٹ“ ہی پیش کرتا اور ہاں! اب سوالات کا سِلسلہ ختم کردیں ۔ مجھے اپنے نومولود پوتے عثمان کو بھی دیکھنے دبئی جانا ہے “۔
میں چاہتا ہوں کہ میرا پوتا عُثمان جب بہت بڑا کاروباری بن جائے اور اپنے آدھے سے زیادہ وسائل غریبوں کے لئے وقف کردے اور آئندہ کی مسلمان نسلیں اُس کا نام بھی عِزّت و احترام سے لِیا کریں“۔
مَیں لیکن ڈار صاحب! کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اور آپ کے پوتے عُثمان کے نانا میاں وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اپنے آدھے سے زیادہ وسائل غریبوں کے لئے وقف کردیں ؟
ڈار صاحب!” دیکھیں! آپ نے محنت سے دولت کمائی ہوتی تو آپ کو اُس کی قدر ہوتی۔ مَیں تو اصول کا بندہ ہوں۔ مَیں نے تو اپنے بیٹے علی کو بھی شروع سے ہی محنت کرنے کی عادت ڈالی ہے۔ اِسی لئے مَیں نے اُسے کاروبار کے لئے مفت نہیں بلکہ اُدھار 40 لاکھ ڈالر دئیے تھے ، جواُس نے واپس کردئیے ۔ مَیں نے اپنے بیٹے کو علامہ اقبالؒ کا یہ مصرع بھی بار بار سُنا کر عملی زندگی میں کامیاب ہونے کا نسخہ بتایا کہ ....
اپنی دُنیا آپ پیدا کر، اگر زندوں میں ہے
آپ نے دیکھا اور سُنا ہوگا کہ میرے بیٹے علی نے اپنی دُنیا آپ پیدا کر کے ”زندوں میں “ ثابت کردِیا ہے۔ اب دُنیا دیکھے گی کہ تیسری بار پیش کئے گئے میرے ” غریب دوست بجٹ“ کو مثال بنا کر ہر غریب پاکستانی نوجوان میں محنت کا جذبہ پیدا ہوگااور جو لوگ دولت نہ کما سکیں اُن کے لئے علامہ اقبال کا یہ شعر مشعل راہ ہے کہ ....
میرا طریق ، امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
قوم کے نام میرا پیغام ہے کہ جِس طرح ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کو ”انگریزی راج کی برکتوں “ کا انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہونے کے بعد پتہ چلا تھا ، اُسی طرح وزیراعظم میاں نواز شریف کے دَور میں پیش کئے گئے ” غریبوں دوست بجٹ کی برکتیں “ بھی ہمارے جانے کے بعد یاد آئیں گی لیکن ،ہم وقت سے پہلے جانے والے نہیں ۔ “

ای پیپر دی نیشن