انقرہ (اے ایف پی+ بی بی سی) ترکی میں 98فیصد ووٹوں کی گنتی کے سرکاری نتائج کے مطابق حکمران اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) زیادہ تر ووٹ لے گئی ہے تاہم وہ پارلیمانی اکثریت کھو بیٹھی ہے اسے حکومت سازی کے لئے اتحاد بنانے کی ضرورت پڑے گی۔ حکمران اے کے پی نے 42فیصد ووٹ لئے ہیں۔ ری پبلیکن پیپلزپارٹی (سی ایچ پی) کو 25، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کو 16.5،کردوں کی حامی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کو 12.5فیصد ووٹ ملے۔ ٹرن آﺅٹ 85فیصد رہا۔ سرکاری اعلان کے مطابق اے کے پی کو 550کے ایوان میں 260سیٹیں ملیں گی۔ جو سادہ اکثریت کے لئے مطلوبہ تعداد سے 16نشستیں کم ہے۔ سی ایچ پی کو 131، ایم ایچ پی کو 82 اور ایچ ڈی پی کو 78نشستیں ملیں گی۔ اس نے 10فیصد کی حد عبور کرلی ہے۔ طیب اردگان ملک میں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام چاہتے ہیں تاہم اس کے لئے دوتہائی اکثریت لازمی ہے۔ طیب اردگان 2003ءسے 2014ءتک وزیراعظم رہے ہیں وہ ترکی کے طاقتور صدر بننا چاہتے ہیں اس وقت یہ عہدہ محض رسمی ہے۔ ان انتخابات میں 550 نشستوں کے لیے 20 سیاسی جماعتیں میدان میں تھیں ووٹروں کی تعداد قریباً پانچ کروڑ ہے۔گذشتہ عام انتخابات میں چار کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ یعنی قریباً 85 فی صد لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا اس بار بھی توقع یہی ہے کہ ووٹنگ کی شرح بلند رہے گی۔ انتخابی نشستوں کو ملک کے 81 صوبوں کے مختلف اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں استنبول کے تین ذیلی اضلاع میں ہیں جن کی مجموعی تعداد 88 ہے۔ انقرہ 32 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ازمیر 26 اور ب±رسا 18 سیٹوں کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ الیکشن لڑنے والی20 جماعتوں میں سے ترک کمیونسٹ پارٹی نے تمام 550 حلقوں سے امیدواروں کو ٹکٹ دیا لیکن یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کمیونسٹ پارٹی نے صرف خواتین کو ہی تمام حلقوں میں امیدوار نامزد کیا۔ ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اِن انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو اپنی پوری مدت میں مقامی یا قومی سطح کے کسی دوسرے الیکشن کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ اس طرح ا±س کے پاس کسی بھی طرح کی انتخابی مجبوریوں کا لحاظ کیے بغیر پالیسیوں کے نفاذ کا اچھا موقع ہوگا چار برس بعد صدارتی، پارلیمانی اور مقامی انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔ پارلیمانی نمائندگی کے لیے ہر جماعت کو پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کا 10 فیصد حاصل کرنا لازمی ہے ورنہ ا±ن کی حاصل کردہ نشستیں دوسری بڑی جماعتوں میں تقسیم کردی جاتی ہیں۔ بائیں بازو کی جماعت ایچ ڈی پی کے پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی کی سیٹیں کم ہو گئی آئین تبدیل کرنے کا ان کا منصوبہ ناکام ہوگا، سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے 276 نشستیں جیتنا لازمی ہے۔ اگر کوئی جماعت آئین میں ترمیم کی خواہشمند ہوتی ہے تو اِس مقصد کے لیے اسے یا تو کم از کم 330 سیٹیں جیت کر آئینی ترامیم کے سوال پر ریفرنڈم کرانے کا حق مل جاتا ہے، اگر حکومت بغیر ریفرنڈم آئین میں ترامیم کرانا چاہے تو ا±سے دو تہائی اکثریت یا پھر 366 سیٹیں جیتنا ہوتی ہیں۔