کالاباغ ڈیم۔ حقیقت کیا، فسانہ کیا؟ (9)

کالا باغ ڈیم کے بارے میں جس بات کا سب سے ز یادہ حوالہ دیا جاتا ہے اور جس بات کا بہت زیادہ پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے ، وہ اِسکے ڈیزائن سے متعلق ہے ۔بیشترلوگوں کو اِس بات کا یقین ہے کہ یہ ایک اری گیشن یا آبپاشی کیلئے بنایا جانے والا ڈیم ہے ، جس سے نہریں نکالی جائینگی اور اِن نہروں کی مدد سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں موجود اراضی کو آبپاش کیا جائیگا ۔
کالا باغ ڈیم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسکی تعمیر کیلئے کالاباغ قصبہ کے قرب و جوار میں مختلف جگہیں تجویز کی گئی تھیں۔ 16ہزار آبادی پر مشتمل یہ قصبہ اٹک پُل سے 148کلومیٹر زیریں جانب واقع ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے جس حتمی جگہ کا انتخاب کیا گیا ،وہ کالاباغ قصبہ سے 19کلومیٹر بالائی جانب اور مسّان ریلوے سٹیشن سے 11کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ کالا باغ ڈیم کی یہ حتمی سائٹ اُس مقام سے صرف ایک کلومیٹر زیریں جانب ہے جہاں دریائے سندھ اور دریائے سواں آپس میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو غالباً اس بات کا علم نہ ہوکہ کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت (6.1ملین ایکڑ فٹ) کا 42.6فیصد (2.6 ملین ایکڑ فٹ) دریائے سواں میں ذخیرہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دریائے سواں سے جو پانی دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے ، وہ دریائے سندھ کے مجموعی بہاﺅ کا صرف2فیصد ہے ۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں زیر آب آنیوالی زمین تقریباً 25اور 75کے تناسب سے بالترتیب خیبر پختونخوا اور پنجاب میں واقع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اُس وقت کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے 82ہزار 600افراد نے متاثر ہونا تھا ۔ ان متاثرہ افراد میں 82.45فیصد کا تعلق پنجاب اور 17.55 فیصد کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔ کالاباغ ڈیم کے آبی ذخیرے کا آخری حصہ دریائے کابل میں جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے اور یہ جگہ نوشہرہ سے 16 کلومیٹر زیریں جانب واقع ہے۔ اس منصوبے سے 3ہزار 600میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ ڈیم میں ذخیرہ ہونیوالے اضافی پانی میں تمام صوبوں کا حصہ ہوگا۔ دریائے سندھ پریہ وہ آخری مقام ہے جہاں کوئی ڈیم تعمیر کیا جاسکتا ہے اور یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں دریائے کابل کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ۔ قارئین کا لاباغ ڈیم کا مکمل نقشہ واپڈا کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کی منصوبہ بندی بنیادی طور پر ایک سٹوریج یعنی صرف پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم کے طور پر کی گئی، کیونکہ اِس کی تعمیر کا مقام دونوں اطراف پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے ۔تاہم واپڈا کے منصوبہ سازوں نے کالا باغ ڈیم کے کنسلٹنٹس سے کہا کہ وہ ٹرمزآف ریفرنس کے مطابق اس بات کا بھی جائزہ لے کہ اس ڈیم سے آبپاشی کیلئے نہریں نکالنا ممکن ہے یا نہیں ۔متعلقہ شق درج ذیل ہے ۔
”IV ۔ مشاورتی خدمات کا دائرہ کار:
(XXIX) دریا کے دونوں جانب ملحقہ علاقوں میں واقع زرعی اراضی کی آبپاشی کیلئے ڈیم کے بالائی حصے میں پانی کے اخراجی دہانوں کے ذریعے پانی فراہم کرنے کے امکان کے قابل عمل ہونے کا مطالعہ اور جائزہ اور مذکورہ مقصد کیلئے سرنگوں کے ساتھ ساتھ اِن میں پانی کی آمد کو کنٹرول کرنے کی غرض سے سٹرکچرکی تعمیر کو کالا باغ ڈیم منصوبے میں شامل کرنا“
کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹس نے نہ صرف پانی کے بالائی اخراجی دہانوں کی تعمیر کے امکان کا جائزہ لیا بلکہ اُس علاقے کا بھی ارضیاتی مطالعہ کیا جہاں سے پانی لےکر جانا تھا ۔ یہ مطالعہ ڈیم کے بائیں اور دائیں دونوں اطراف کیا گیا ۔کنسلٹنٹس نے علاقے کی جغرافیائی اور ارضیاتی ساخت کے بارے میں تفصیلی رائے بھی دی اوراپنے نتائج میں اقتصادی طور پر قابلِ عمل متبادل حل بھی تجویز کیا،جس پر بعد ازاں عالمی بنک اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل نے بھی نظر ثانی کی ۔
اُنہوں نے خصوصاً آبی ذخیرے سے پانی کے اخراج پرآنیوالی لاگت اوراس انتظام سے بجلی کی پیداوار پر منفی اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے اِس بات کی سفارش کی کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں سے مذکورہ علاقوں کو سیراب کرنے کیلئے یہ زیادہ موزوں ہو گا کہ پانی کالا باغ ڈیم کی بجائے اُسکے ڈاﺅن سٹریم (زیریں جانب) سے لیا جائے۔ کنسلٹنٹس کی جانب سے اخذ کئے گئے نتائج کا خلاصہ یہ تھا کہ ڈیم سے نکالے جانیوالی مجوزہ سرنگوں کی تعمیر پر بے تحاشا لاگت آئیگی۔ علاوہ ازیں یہ سرنگیں ایسے پہاڑوں کے علاقے سے گزریں گی ، جہاں ارضیاتی حالات بہت زیادہ غیر موافق ہیں ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کالا باغ کنسلٹنٹس نے ڈیم سے پانی کے اخراج کیلئے اونچی سطح پر سرنگوں کی تعمیر کو ناممکن قرار نہیں دیا، لیکن اقتصادی اہمیت کے حامل منصوبے میںلاگت کا تخمینہ ہمیشہ ممکنہ فوائد کو پیشِ نظررکھ کر ہی لگایا جاتا ہے ۔
چیئرمین واپڈا نے 5 نومبر1984 ءکے دن وفاقی کابینہ کو کالا باغ ڈیم منصوبے سے متعلق مختلف پہلوﺅں پر بریفنگ دی ۔ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے گورنر یہ بات نہیں چاہتے تھے کہ واپڈا ، ڈیم سے آبپاشی کے انتظام کو یکسر ختم کر دے ۔اجلاس میں گورنر سندھ بھی موجود تھے ، اُنہوں نے اِس خدشے کا اظہار کیا کہ ” مجوزہ ڈیم اور آبپاشی کی سہولیات سندھ میں پانی کی فراہمی کی صورتِحال کو بُری طرح متاثر کر سکتے ہیں “۔ اجلاس میں بحث و تمحیص کے بعد کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کے ڈیزائن کے معیارات اور اِس منصوبے کے اقتصادی ، تکنیکی ، سماجی اور دیگر پہلوﺅں کا جائزہ لینے کیلئے وزراءکی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
محترم قارئین ۔ یہ بات محلِ نظر رہے کہ کابینہ کو مذکورہ بریفنگ 1984 ءمیں دی گئی تھی اور اُس وقت پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے نہیں پایا تھا اور صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم نہایت حساس اور متنازع معاملہ تھا ۔ بین الوزارتی کمیٹی کے اجلاس دسمبر 1984 ءاور جنوری 1985 ءمیں منعقد ہوئے ۔ کمیٹی کی حتمی سفارشات 27 فروری 1985 ءکے روز کابینہ کو ارسال کردی گئیں۔کابینہ تحلیل ہونے کے باعث سمری میں شامل یہ تجویز زیرِ بحث نہیں لائی جاسکی ۔ مارشل لاءکے تحت غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد کے بعد وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی سربراہی میں مارچ1985 ءکے دوران نئی کابینہ وجود میں آئی۔اکتوبر1985 ءمیں اُس وقت کی صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے واپڈا سے درخواست کی کہ وہ آبپاشی کے امکان کا جائزہ لینے کیلئے مطالعاتی تجزیہ (Study) کرے۔ جس پر واپڈا کسی بین الاقوامی مشاورتی کمپنی کی بجائے اپنے ہی انجینئر ز کی مدد سے مذکورہ مطالعاتی تجزیہ کرنے پررضا مند ہوگیا۔اِس سے قبل کہ یہ تجزیئے کئے جاتے ، واپڈا نے کنسلٹنٹس کی جانب سے اخذ کئے گئے واضح نتائج کو تسلیم کر لیا۔ واپڈا کا یہ فیصلہ بلند سطح پر پانی کے اخراجی دہانوں کے امکان کی کھوج کا عملی طور پر خاتمہ تھا ۔ عالمی بنک اور آزاد ماہرین پر مشتمل پینل نے پراجیکٹ پلاننگ رپورٹس کا بھی جائزہ لیا اور اِس رپورٹس کے مندرجات سے اتفاق کیا (اضافی مطالعات اور ڈیزائن میں تبدیلی پر مشتمل پراجیکٹ پلاننگ رپورٹس کا حتمی مسودہ 30 جون 1988 ءکو پیش کیا گیا تھا )۔ واپڈا نے اِس ضمن میں درج ذیل فیصلے کئے :
-1واپڈا نے کنسلٹنٹس کو اخذ کردہ نتائج پر نظرِ ثانی کیلئے نہیں کہا۔ -2 واپڈا نے کنسلٹنٹس کے اخذ کئے گے نتائج کو چیلنج کرنے کیلئے کسی دوسرے مشاورتی ادارے کی خدمات حاصل نہیں کیں۔ -3 چونکہ کنسلٹنٹس نے قابلِ کاشت اراضی کو سیراب کرنے کیلئے متبادل اقدام کی تجویز پیش کی تھی ۔ لہٰذا اس بارے میں واپڈا نے صوبہ سرحد کی مختلف حکومتوں سے مثبت رابطہ برقرار رکھا۔ نتائج اور سفارشات پر نظرِ ثانی کی غرض سے واپڈا کی جانب سے چونکہ کوئی اثباتی قدم نہیں اٹھایا گیا، اِس لئے کنسلٹنٹس نے منصوبے کے مفصل انجینئرنگ ڈیزائن کو حتمی شکل دے دی۔اِس ڈیزائن میں مستقبل میں سرنگوں کی تعمیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور اِسی بنا پرڈیم کے دونوں اطراف آبپاشی کےلئے نہروں میں پانی کے اخراج کےلئے بھی کوئی امکان نہیں بچا۔پانی کے اخراجی دہانوں کے بغیر یہ مفصل انجینئرنگ ڈیزائن مارچ 1989ءمیں سی ڈی ڈبلیو پی/ایکنک میں پیش کیا گیااور اِس منصوبے کے پی سیII کو منظوری کیلئے زیرِ بحث لایاگیا۔اُس دِن سے آج تک منصوبے کا یہی ڈیزائن بغیر کسی تبدیلی کے پلاننگ کمیشن کی فائلوں میں موجود ہے

ای پیپر دی نیشن