انصاف کے منافی آئینی استثنیٰ کیوں ؟

دستور اسلامی جمہوریہء پاکستان کے آرٹیکل دو سو ستائس کے تحت نہ صرف قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی ممانعت ہے بلکہ ہم پہلے سے موجود ملکی قوانین کو بھی غیر مسلم شہریوں کے مذہبی حقوق متاثر کئے بغیر قرآن وسنت میں دئیے گئے اسلامی احکامات کے مطابق ڈھالنے کے پابند ہیں۔ آرٹیکل دو (اے) کی رو سے انیس سو انچاس میں منظورکی گئی قرارداد مقاصد آئین کا حصہ بن چکی ہے۔قرارداد مقاصد کے مطابق پوری کائنات میں اقتداراعلیٰ کا تعلق صرف اور صرف اللہ تبار ک و تعالیٰ کی ذات اقدس سے ہے اور جو اتھارٹی اس ذات با برکات نے ریاست پاکستان کو عطاء کر رکھی ہے اسے عوام کے ذریعے صرف اللہ سبحان و تعالیٰ کی مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قرار داد مقاصد میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست کی اتھارٹی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے اس طرح استعمال کی جائے گی کہ اسلام کے وضع کردہ اصول، جمہوریت ،آزادی،مساوات،عفو و در گذر اور معاشرتی انصاف کی مکمل پاسداری ہو اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائیگا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتمائی زندگیوں کو قرآن و حدیث میں درج اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس قرارداد میں یہ بھی واضح ہے کہ عدلیہ کی آزادی کا ہر صورت تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 228 کے تحت صدر قرآن وحدیث کے مطابق اسلامی اصولوں اور فلسفے پر عبور رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے دین پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لانے کا مجاز ہے ۔ آرٹیکل 229 کے تحت صدر ،گورنر یا ہائوس کے ممبران کی مخصوص تعداد کی طرف سے کسی مجوزہ قانون کے اسلام سے متصادم یا مطابق ہونے کے بارے میں ایڈوائس کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کو ریفرنس بھجوا یا جا سکتا ہے۔آرٹیکل 230 کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل نہ صرف ریفرنس پر مناسب ایڈوائس بھیج سکتی ہے بلکہ از خود بھی شہریوں کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانے کی خاطر قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے اپنی سفارشات قومی و صوبائی اسمبلیوں کو بھجواسکتی ہے۔ کونسل کی حیثیت اگرچہ محض ایڈوائزری ہے مگر آئین کے آرٹیکل 203ڈی کے تحت جو اختیار وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہے اسکی حیثیت محض ایڈوائزری نہیں بلکہ وفاقی شرعی عدالت وفاقی یا صوبائی حکومت کے علاوہ کسی شہری کی درخوست پر یا از خود نوٹس پر کسی قانون کو قرآن و حدیث میں درج اسلامی احکامات سے متصادم قرار دے سکتی ہے اور ایسی صورت میں صدر اور گورنر اپیل کی مدت گزرنے کے بعد فیصلے پرعملدرآمد کے پابند ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو محض ایڈوائزری فورم رکھنے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں یا وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر کس حد عملدرآمد ہوا ہے اور کیا کام باقی ہے، دستور کی ان شقوں سے ایک بات واضح ہے کہ پاکستان کاآئین جو معاشرتی ماحول تجویز کرتا ہے اس میں ظلم، نا انصافی، کرپشن،اقرباء پروری، عدم مساوات،عدم برداشت، جہالت، جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘ دہشت گردی ، بھتہ مافیا،لینڈ مافیا، موروثی سیاست اور ملوکیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل دو سو اڑتالیس کے ذریعے حکمرانوں کو فوجداری اور سول مقدمات کی کاروائی سے بدستور استثنیٰ حاصل چلا آرہا ہے۔استثنیٰ کے مخالفین کا استدلال ہے کہ جمہوری نظام میں مساوات اور قانون کی حکمرانی پر عمل ہوتا ہے اور اگر کسی بڑے کو استثنیٰ دے دیا جائے تو یہ انصاف کے اصولوں کے منافی رویہ ہے۔
استثنیٰ کے حامیوں کا استدلال یہ ہے کہ حکمران کو اعتماد اور خوش اسلوبی سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور مقدمات کے الجھائو میں جہاں حکومت کا کام متاثر ہو سکتا ہے وہاں ریاست کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہاں اس مقدمہ کا مختصر تذکرہ ضروری ہے جو مسٹر کلنٹن کے خلاف اس کے عہد صدارت میں امریکہ کی وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر ہوا۔امریکی ریاست ارکنسس کی سابق سرکاری ملازمہ پائولہ جونز نے اس مقدمہ میں امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف جنسی ہراسمنٹ کا الزام عائد کیا ۔جج سوسن رائٹ نے مقدمہ بل کلنٹن کی صداتی مدت ختم ہونے تک داخل دفتر کر دیا۔ عدالت اپیل نے پائولہ جونز کے حق میں یہ رولنگ دی کہ صدربھی دیگر سرکاری اہلکاروں کی مانند ان قوانین کا پابند ہے جن کا اطلاق معاشرے کے دیگر ارکان پر ہو تا ہے۔ کلنٹن نے تب امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کی۔امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے متفقہ طور پر عدالت اپیل کے فیصلے کی توثیق کر دی۔جس کے نتیجے میں وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمہ کی کاروائی پھر شروع ہو گئی۔اس دوران جج نے عدالت میں غلط بیانی کی بنا پر بل کلنٹن کو نہ صرف 900000ڈالر جرمانہ کردیابلکہ اس کا وکالت کا لائسنس منسوخ کرنے کیلئے ریاستی سپریم کورٹ کی کنڈکٹ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ریفرنس کے نتیجے میں ارکنسس سپریم کورٹ نے کلنٹن کا لائسنس معطل کردیا اور اسے بار کی رکنیت سے محرومی کا دفاع کرنے کیلئے چالیس دن کی مہلت دی۔انتالیسویں دن مسٹر کلنٹن نے تادیبی کاروائی سے بچنے کیلئے بار کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اوراسے مدعیہ پائولہ جونز کے ساتھ راضی نامہ کرنے کیلئے 850000 ڈالر کی رقم ادا کرنا پڑی۔اب مجھے کوئی بتائے کہ اس مقدمہ کی وجہ سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کیا بدنامی ہوئی ۔یہ بھی بتایا جائے کہ دنیا کی اس واحد سپر پاور کا کونسا سرکاری کام تھا جو اس مقدمہ کی کاروائی کی بھینٹ چڑھ گیا۔میرے خیال میں بل کلنٹن کی طرف سے اگر کسی آئینی یا قانونی استثنیٰ کے پیچھے چھپ کربچنے کی کوشش کی جاتی تو یہ پہلو امریکی نظام کے گلے میں بدنامی کے طوق کے مترادف قرار دیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک اسلامی جمہوریہء پاکستان کا تعلق ہے۔ قانون کی حکمرانی کا خواب تو ہم بھی مدت سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ عوام کا یہ دیرینہ خواب کب شرمندہء تعبیر ہوگا ۔

ای پیپر دی نیشن