ستیاناس ہو اور بہت ہی برا ہو پانامہ لیکس کا جس نے ہمارے ”اشرافیہ“ کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کو بھی ٹینشن میں مبتلا کردیا ہے اس حد تک کہ ایک ماہ میں تین بار قوم سے مخاطب ہونا پڑا۔ پھرجلسے جلوس منعقد کرانا پڑے وہاں سے اپنے چاہنے والوں اکرم درانی اور مولانا فضل الرحمن، وزیراعلیٰ بلوچستان کی بے پناہ ہمدردیاں سمیٹیں مگر پھر بھی ٹینشن میں افاقہ نہ ہوا اور ”دردِ دل“ نے دبوچ لیا۔ اب وزیراعظم صاحب لندن ہسپتال میں داخل ہیں، منگل 31 مئی کو سرجری ہوئی ہے۔ ہمارے کالم کی اشاعت تک انشاءاللہ وزیراعظم صاحب صحت یاب ہوکر دردِ دل سے چھٹکارا پا چکے ہوں گے۔ بقول شاعر ”دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“ مگر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو پاکستانی قوم کا درد دے کر پیدا کیا گیا ہے۔ اسلام کسی دشمن کے لئے بھی بددعا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دیکھئے پاکستانی قوم کا حوصلہ اور عزم کس قدر بلند ہے کہ حالانکہ ہمارے حکمران اپنے وعدوں کے مطابق قوم کی فلاح کیلئے کچھ بھی نہیں کرتے۔ سوائے انہیں حیلے بہانوں سے ٹیکسوں کی مد میں لوٹتے ہیں۔ دیگر ممالک سے اربوں قرضہ لے لیا جاتا ہے جوکہ عوام پر خرچ بھی نہیں ہوتا۔ انکے اور انکی اولادوں کے ذاتی اکاﺅنٹس میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اسکے باوجود جب حکمران طبقہ بیمار ہوتا ہے یا دل سمیت کسی بھی عارضے میں مبتلا ہوتا ہے تو پوری ”ٹینشن زدہ“ قوم جسے کسی بھی طرح سے سکون میسر نہیں ہے مگر پھر بھی پوری قوم حکمرانوں کی صحت کی دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لیتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ تیسری بار نواز شریف صاحب وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں مگر ایک بھی ایسا ہسپتال یہاں نہیں بنا سکے جہاں عوام کا اور ان کا علاج ممکن ہو۔ شہباز شریف صاحب میٹرو بسیں اور اورنج ٹرین بنانے پر اربوں روپیہ لگانے میں بضد دکھائی دیتے ہیں مگر دس بارہ ایسے ہسپتال بنانے سے غافل کیوں ہیں؟ شہباز شریف خود بھی ذرا سا اَن فٹ ہوتے ہیں فوراً چیک اپ کےلئے لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔ عوام بے چارے گنگارام، سروسز ہسپتال اور میو ہسپتال میں پرچیاں حاصل کرنے کےلئے قطاروں میں لگ کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ کیا یہ حکمران اللہ کی بارگاہ میںجواب دہ نہیں ہوں گے؟ کیا ہی اچھا ہوتا نواز شریف صاحب اپنے کسی پاکستانی ہسپتال میں داخل ہوتے، انہیں عوام کی مشکلات کا بھی اندازہ ہوتا اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا بھی اور قوم انکی عیادت کو بھی آتی۔ آج حمزہ اور شہباز شریف سمیت انکی فیملی تو لندن میں پہنچ گئی ہے۔ کیا یہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں؟ پرویز رشید نے ویسے تو کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم کا علاج انکے ذاتی پیسوں سے ہو گا۔ اللہ کرے کہ پرویز رشید کی کوئی ایک بات تو سچ ہو؟ بہرحال پانامہ لیکس میں وزیراعظم کا نام بھی نہیں ہے۔ نام تو انکی بیگم اور بچوں کے ہیں جن کی ایک ایک بات میں تضاد ہے۔ والدین بھی اولاد کےلئے اپنی حیثیت کے مطابق کیا کچھ نہیں کرتے۔ اب انکے بچوں کے نام پر اربوں، کھربوں کے حساب سے دولت ہے، ظاہر ہے والدین کی دی ہوئی ہے۔ اب قوم اگر اسکی وضاحت مانگتی ہے تو ہچکچانے والی کونسی بات ہے؟ سب تفصیل بتا دیجئے۔ اگر بتانا ممکن نہیں ہے تو عہدے سے علیحدہ ہو جایئے۔ ہر سال کھربوں کا بجٹ ویسے تو مختلف ترقیاتی منصوبوں کےلئے زبانی پیش کر دیا جاتا ہے مگر پورا سال متعلقہ اداروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ ساری رقم بیورو کریسی اور وزراءو حکومتی عہدیداروں کے اکاﺅنٹس میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اسی کا نام کرپشن ہے۔ ویسے ہمارے حکمرانوں میں ایک بات تو مشترک ہے۔ دل کا عارضہ، مشرف بھی جب خصوصی عدالت کےلئے روانہ ہوئے تو ”دردِ دل“ کے ساتھ آرمی ہسپتال چلے گئے۔ زرداری بھی آج تک بیرون ملک ”دردِ دل“ کا علاج کروا رہے ہیں۔ سینکڑوں پاکستانی روزانہ دل کے عارضے جیسی موذی بیماریوں سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بغیر علاج معالجہ کے جان دے دیتے ہیں مگر حکمران طبقہ لندن کے ہسپتالوں میں جا کر علاج کراتا ہے۔ یہاں انکے بنائے ہوئے ہسپتالوں میں نہ ان کی فیملی علاج کراتی ہے۔ یہاں کے سکولز کالجز میں ان کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے، کیوں؟ زبانی تو حکمران طبقہ ان اداروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا۔ عدل تو یہ ہے کہ حاکم اور رعایا ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ انکی بودوباش اور طرز زندگی میں معمولی بھی فرق نہ ہو۔
ہمارے مذہب کی تعلیم بھی یہی ہے۔ حضور خندق کھودنے کے وقت دیگر صحابہ کے ساتھ خود کام کرتے ہیں اور بھوک کی وجہ سے جب دوسرے صحابہؓ پیٹ پر ایک پتھر باندھتے ہیں تو خاتم النبین نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی یہی احساس ہو جائے اور آپ کی تعلیمات کو اپنا لیں تو عوام اور حکمرانوں میں فرق ہی محسوس نہ ہو۔ ہماری دعا ہے کہ وزیراعظم صاحب صحت یاب ہو کر جلدی وطن واپس تشریف لائیں، آمین۔
پانامہ لیکس اور ”دردِ دل“
Jun 08, 2016