”میجر نتن لتل گوگی“ بزدل فوج کا پست حوصلہ افسر

بھارت نے جس طرح فوجی طاقت کے بل بوتے پر مقبوضہ کشمیر پر تسلط جما کر وہاں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے کثرت رائے سے منظور کی جانے والی قرار داد کے بعد دیا جس پر عملدرآمد کی بجائے بھارت نے وہاں 8 لاکھ ریگولر اور تقریباً5 لاکھ پیرا ملٹری فورسز تعینات کر کے کشمیریوں کو ڈرانے اور وہاں ریاستی انتخابات کا ڈھونگ رچاکر اسے حق خودارادیت کا متبادل ظاہر کرنے کی کوشش کی جسے کشمیریوں نے بھرپور بائیکاٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ بری طرح ناکامی سے دوچار کیا‘ بھارت اسکے باوجود یکطرفہ انتخابی نتائج کی بنیاد پر وہاں کٹھ پتلی ریاستی حکومت کا قیام عمل میں لاتا رہا جبکہ ریاست کا سارا انتظامی کنٹرول وہاں تعینات بھارتی فوج کے پاس رہا۔ 9 اپریل2017 کو ایسے ہی ایک انتخابی عمل کے دوران بڈگرام میں کشمیریوں نے اپنے احتجاج اور پتھرا¶ کے ذریعے الیکشن کے انعقاد کو ناکام بنا دیا۔ پولنگ اسٹیشن خالی پڑے تھے بھارتی فوج چاہتی تو اس موقع پر حسب معمول پیلٹ گن کے استعمال سے کچھ نوجوانوں کو اندھا کرتی یا برائے راست فائرنگ کر کے انہیں موت کی نیند سلا سکتی تھی لیکن اس طرح نیو دہلی سے لائے گئے صحافیوں کو لوگوں کے لائن میں لگ کر ووٹ ڈالتے ہوئے دکھانے کا منصوبہ بری طرح ناکام ہو جاتا۔ احتجاج شدت اختیار کر لیتا۔ فائرنگ کی آواز‘ لوگوں کی چیخ و پکارا ثابت کر دیتی کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام حقیقی خود ارادیت چاہتے ہیں جعلی انتخابات نہیں۔
اس پریشانی کاوہاں تعینات ”53 راشٹریہ رائفل“ کے میجر نیتن لتل گوگی نے ایسا حل نکالا جس کی توقع فسطائی ذہنیت رکھنے والے کسی بگڑے ہوئے جاگیردار سے تو کی جا سکتی ہے لیکن بھارت جیسے ملک کی نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ تربیت کی حامل فوج کا ایک افسر جس نے میجری کے عہدے تک مختلف کمپنیوں و اسکوارڈرن کمانڈ کئے ہوں وہ اس طرح کی غیر پیشہ ورانہ حرکت کرےگا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا‘ اس اقدام کو تربیت کی کمی ‘ کم ہمتی کچھ بھی کہہ لیں میجر لتل گوگی نے راہ چلتے 26 سالہ ایمبرائیڈری کے کاریگر فاروق احمد ڈار کو پکڑا اور اسے رسیوں سے جیپ کے بونٹ کے سامنے لگے بمپر پر باندھ دیا۔ فارو ق ڈار کو جیپ کے سامنے باندھ کر میجر لتل گوگی پانچ گھنٹے تک نہ صرف اس پورے علاقے میں پھراتا رہا جہاں الیکشن کا ڈھونگ رچایا جا رہا تھا بلکہ اسے تماشا بنا کر قریبی علاقوں میں بھی گھماتا رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی اور ”واٹس ایپ“ و دیگر سوشل میڈیا سروسز کے معطل ہونے کے باوجود فاروق ڈار کو انسانی ڈھال“ کے طور پر استعمال کرنے کے مناظر پر مبنی موبائل ویڈیو بھارت کے اپنے ہی فوجیوں کی طرف سے منظر عام پر آ گئی۔ ایک انسانی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والے ”53 راشٹریہ رائفل“ کے فوجیوں نے اس منظر کی عکس بندی کر کے بھارت میں اپنے دوستوں کو ارسال کر دی بڈگرام میں جہاں یہ سارا تماشہ ہو رہا تھا ابھی فاروق ڈار کو گھمانے کا سلسلہ جاری تھا کہ ویڈیو بھارت کے نیوز چینلز پر بھارتی فوج کا منہ چڑانے کیلئے نشر کر دی گئی ساتھ ہی عالمی نشریاتی اداروں نے اس پر تبصرے بھی شروع کردیئے بھارتی فوج میں انکے ایک افسر نے احتجاج کرنے والوں کے پتھروں سے بچنے کیلئے وہ حل نکالا جو آج تک مقبوضہ فلسطین میں ظلم ڈھانے والے اسرائیلی فوجی بھی نہیں سوچ سکے تاہم اس موقع پر بھارتی وزارت دفاع نے ایک انسان کو بطور ڈھال استعمال کرنے کے عمل کی تائید کرنے سے انکار کر دیا۔ محبوبہ مفتی نے پولیس کو معاملے کی مکمل چھان بین کرنے کا حکم دیا تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے خود کو بے قصور ثابت کرنے کےلئے فاروق ڈار پر الزام دھر دیا کہ وہ پٹرولنگ کرنےوالے بھارتی فوج کے دستے پر پتھرا¶ کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی طرف سے پھینکے گئے بھاری پتھروں کی بنا پر 2 بھارتی فوجی زخمی ہو گئے جس کے ردعمل میں زخمی فوجیوں کے دیگر ساتھیوں نے اس پر تشدد کرنے کی بجائے سزا دینے کیلئے اسے جیپ کے سامنے باندھ دیا۔ اپنی صفائی میں بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں نمائندے کا م¶قف واضح طور پر یہی تھا کہ فوج کا فاروق ڈار کو بطور ”انسانی ڈھال“ استعمال کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا لیکن جب فاروق ڈار سے پوچھ گچھ ہوئی تو اس نے کہا کہ وہ مزدور آدمی ہے‘ اس نے کسی کو پتھر نہیں مارا۔ وہ تو ووٹ ڈال کر واپس جا رہا تھا۔ بہرحال 17 اپریل کو بڈگرام کے تھانہ میں بھارتی فوجیوں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا کیونکہ بھارت کے اپنے اندر ہی سے نہیں بیرونی دنیا کی طرف سے بھی بھارت اور بھارتی فوج کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔ عالمی سطح پر جاری اس احتجاج کو خاموش کرانے کےلئے شاید مقدمے کا اندراج ضروری سمجھایا گیا۔ 19 مئی 2017ءکو بھارتی وزیر دفاع ارن جٹیلی نے پریس کانفرنس کی اور صحافیوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ وہ فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتیاط کرنا نہ بھولیں کہ فوج ایک انتہائی ذمہ دار ادارہ ہے۔ اس پر ان تمام لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری تھی جو 9 اپریل کو بڈگرام میں ووٹ ڈالنا چاہتے تھے جبکہ کچھ عناصر ان لوگوں کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے جس کی وجہ سے فاروق ڈار والا مسئلہ پیش آیا تاہم اس پوری صورت حال پر 20 اپریل 2017ءکو بھارت کے اخبارات میں مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن (ریٹائرڈ) آمریندر سنگھ کے کالم نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس نے میجر گوگی اور اسکے کمانڈروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے کالم میں فاروق احمد ڈار سے متعلق تجویز دی کہ کشمیری نوجوان جسے جیپ کے ساتھ باندھ کر اسکی تذلیل کی گئی اور وہ بے بسی کی تصویر بنا یہ ظلم سہتا رہا نے فوج کے ایک میجر جس کے ساتھ پوری مسلح فورس موجود تھی سے زیادہ حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا اور اس حوصلہ مندی پر اسے Distinguished Services Medal سے نوازا جانا چاہیے۔ فوجی افسر ”چین آف کمانڈ“ کے تحت فیصلے کرتا ہے۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتا جس کی وجہ سے اس کے ادارے پر آنچ آئے اور اس کی عزت خاک میں مل جائے۔ میجر نتن لنل گوگی نے اپنے کم حوصلہ ہونے کی وجہ سے اس قدر عامیانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسے کشمیری نوجوانوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جو اپنے اکثریتی ہم وطنوں کے برخلاف ووٹ ڈالنے کی غلطی کر کے واپس آ رہا تھا‘
یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ 28 مئی کو بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پریس کانفرنس بلا کر بھارتی فوج کی رہی سہی لٹیا بھی ڈبو دی۔ جنرل بپن کی طرف سے میجر گوگی کو ایوارڈ سے نوازنے کی خبر 2 روز پہلے ہی میڈیا میں آ چکی تھی لیکن یہ ”ذرائع“ کے حوالے سے تھی۔ اس پر بھارتی میڈیا چاہتا تھا کہ بھارتی وزارت دفاع یا فوج اپنی رائے دے اور بتائے کہ ایوارڈ دیا گیا ہے تو کیوں۔ جنرل بپن راوت نے بزدل میجر کو ایوارڈ دینے کی تصدیق کی اور اس کے لئے عجیب و غریب اور مقبوضہ کشمیر میں جاری صورتحال سے یکسر مختلف جواز میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ”کاش احتجاج کرنے والے کشمیری ہتھیار اٹھا لیں تو انہیں بھارتی فوج کی قوت کا اندازہ ہو اور بھارتی فوج کےلئے انہیں جواب دینا بھی آسان ہو جائے“ یہ بات اگر کوئی سیاستدان کرتا تو تسلیم کیا جا سکتا تھا کہ لفاظی کی جا رہی ہے۔ فوج کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ یوں حقائق کو مسخ کرے۔بھارتی آرمی چیف کے م¶قف کو بھارت کے سنجیدہ حلقوں نے پسند نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے اپنے ایک نااہل میجر کو بچانے کے لئے الٹا کشمیریوں کے اس م¶قف کو تقویت پہنچائی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں۔ بھارت بندوق کے زور پر وہاں قابض ہے۔ جسے کشمیری کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے وہ 7 دہائیوں سے اپنا احتجاج اور آزادی کے لئے تحریک کا سلسلہ زندگی اور موت کی پروا کئے بغیر جاری رکھے ہوئے ہیں اور خود کو بھارتی افواج سے زیادہ بہادر ثابت کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن