حالات کیسے بھی ہوں انتخابی سال 2018ئ

Jun 08, 2017

احمد کمال نظامی

فیصل آباد ۔۔ احمد کمال نظامی

 پانی اور بجلی کے وزیرمملکت چوہدری عابد شیرعلی نے فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد نوازشریف کو معمار پاکستان کے خطاب سے یاد کیا ہے اور کہا ہے کہ انتخابات میں میاں محمد نوازشریف نے قوم سے جس قدر بھی وعدے کئے تھے ان پر نہ صرف عمل کیا ہے بلکہ عوام کی اکثریت اس کی تائید بھی کرتی ہیں۔ پورے ملک میں اس وقت جو ترقیاتی میگا پراجیکٹس کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ میاں محمد نوازشریف کی عوام دوستی کا ثبوت ہے۔ اس وقت میاں محمد نوازشریف کی مخالف قوتیں مقابلہ کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ حقائق کے آئینہ پر ایک نظر ڈالیں تو انہیں صاف دکھائی دے گا کہ میاں محمد نوازشریف کل بھی تمام تر بحرانوں میںسے سرخرو ہو کر نکلتے رہے ہیں، اب بھی سیاسی حلقوں کا یہی خیال ہے کہ جے آئی ٹی کی گرم بازاری کے باوجود وہ سرخرو ہوکر رہیں گے۔ نوازشریف نے اسی اعتماد کے ساتھ لاہور میں ایک محدود پیمانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارکان اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ رابطہ عوام مہم کو تیز کر دیں اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ کون سا دور اور عہد ایسا نہیں رہا جس میں ہمارے خلاف سازشوں کے جال نہیں بنے گئے۔لیکن ہم مخالفین کی سازشوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں۔ سازشیں ہوتی رہتی ہیں اور ہوتی رہیں گی لیکن ہمارا ترقی کا سفر جاری رہے گا اور بھرپور طریقہ سے جاری رہے گا۔ میاں محمد نوازشریف نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لاء کے ادوار اور سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے کاموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سہرا بھی ان کی حکومت کے سر جاتا ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت سے سرفراز کیا اور موٹروے سے بھی ہمکنار کیا ۔بلکہ اب ہم جو معاشی دھماکہ کر رہے ہیں یہ پاکستان میں ایک انقلاب کی نوید ہو گا۔ ہمارے سیاسی مخالفین جنہوں نے ملک کو اندھیروں میں ڈبو دیا تھاان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں جبکہ ہمارا ایجنڈا پاکستان کو روشن پاکستان بنانا ہے۔ جس میں 2018ء پاکستان کیلئے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا سال ہو گا۔ 

اس امر میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ میاں محمد نوازشریف جس معاشی دھماکہ کی بات کرتے ہیں انہوں نے اس کی بنیاد بڑی مضبوط رکھی ہے۔ کسی بھی ملک کی اقتصادیات کا انحصار اس کے تمام صوبوں کے ذرائع اور وسائل کی اجتماعی ترقی پر ہوتا ہے۔ پاک چائنا ٹریڈ اکنامکس(سی پی ای سی) کسی ایک موٹروے کا نام نہیں ہے بلکہ بہت راستوں اور شاہراہوں کے جال کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے جو میاں محمد نوازشریف کے مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر چین کے لئے گوادر کا روٹ کھل جانے سے تقریباً بارہ ہزار کلومیٹر مسافت ڈھائی ہزار کلو میٹر میں تبدیل ہو جائے گی۔ بطور قوم ہمیں اس نعمت کو خوش آمدید کہنا چاہیے یہ کس کی سعی و کاوش کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ مخالفین بھی برملا میاں محمد نوازشریف کا ہی نام لیں گے کیونکہ اس جدید دور میں سی پیک نہ صرف پاکستان کی ترقی کا سنگ میل ثابت ہو گا۔ سی پیک کی وجہ سے قومی یکجہتی میں بھی بھرپور اضافہ ہو گا جبکہ اس کی تکمیل سے پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ اس سے بڑا معاشی دھماکہ اور کیا ہو گا جس کا کریڈٹ صرف اور صرف میاں محمد نوازشریف کو جاتا ہے۔ چونکہ میاں محمد نوازشریف نے انتخابی بگل بجا دیا ہے۔ایسے میں میاں محمد نوازشریف کے سیاسی مخالفین جن میں سرفہرست عمران خان ہیں، جے آئی ٹی پر اس قدر سوالات اٹھا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا جو بینچ پانامہ کیس کی سماعت کر رہا ہے اسے بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ کہیں کہ عدلیہ اور جمہوری نظام دونوں آزمائش سے گزر رہے ہیں تو بجا ہو گا۔ ملک کی سیاسی تاریخ میںگارڈ فادر اور مافیا جیسے حوالے غالباً ان لوگوں کے لئے زیادہ موزوں ہیں جنہوں نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو طلب کر کے ان سے جبراً استعفیٰ طلب کیا تھا اور طاقت کے ذریعے تحریک کچلنے کی کوشش کی تھی ۔لہٰذا جنرل پرویزمشرف پر یہ دونوں اصطلاع فٹ ہوتی ہیں۔ میاں محمد نوازشریف نے تو اپنی فیملی کو بھی احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے۔پیپلزپارٹی کے لیڈر چوہدری اعتزازاحسن نے بھی کہہ دیا ہے کہ جے آئی ٹی کی تفتیشی ٹیم کیلئے رجسٹرار کی جانب سے دو نام دینے کے عمل سے نوازشریف کو جے آئی ٹی کی تفتیش پر اعتراض کرنے کو تقویت مل سکتی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو فضا بن چکی ہے اور بقول علامہ طاہرالقادری کے پانامہ کیس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،اس پر میاں محمد نوازشریف نے انتخابات کا بگل بجا دیا ہے۔ وہ وزیراعظم ہیں اور قبل ازوقت انتخابات کرانے کا اختیار بھی وہی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف جس تیزی کے ساتھ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کا معجون مرکب بنتی چلی جا رہی ہے اور جس تیزی کے ساتھ پیپلزپارٹی کے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کی طرف سے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی پرواز اس طرح نہیں رہی آئے روز کی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے بھی کسی حد تک عوام بیزار ہو چکے ہیں۔ ملک میں جاری شورشرابا اور ہنگامہ خیز سیاست کے گرماگرم ماحول میں اگر میاں محمد نوازشریف انتخابات کا اعلان کریں اور ان کے مخالفین ٹکٹوں کی جنگ میں الجھ کر رہ جائیں تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی سمیت بہت سی سیاسی جماعتوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے اور جب انتخابی بگل بجے گا ویسے بھی میاں محمد نوازشریف کے لئے حالات کسی حد تک سازگار ہو جائیں گے تاہم پنجاب میں اس مرتبہ میدان مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے مابین لگے ۔ مسلم لیگ(ن) کو یہ بھی فائدہ ہو گا کہ وہ الیکشن لڑنے کے پرانے داؤ پیچ رکھتی ہے اور اس کے زیادہ تر امیدوار الیکشن لڑنے اور ووٹ باہر نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ اگر اس مرتبہ بھی تحریک انصاف پچھلے الیکشن کی طرح انتخابی دنگل میں اپنے داؤپیچ نہ دکھا سکے تو اس مرتبہ بھی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) جو کہ گزشتہ چار الیکشنوں سے انتخابات لڑتی چلی آ رہی ہے اس مرتبہ بھی یہ معرکہ جیت جائے گی۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ق)اور تحریک انصاف کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم اور دیگر سیاسی مسائل میں الجھ کر رہ جائیں گی اور پھر انہیں سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ ان کے ساتھ ہاتھ کون کر گیا۔ ہمیں تو ان جماعتوں کا انتخابات میں یہی حشر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مزیدخبریں