مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کا مستحکم ہوناضروری !

سلطان سکندر
”یہ بنجارہ اسی بَن میں تھکاوٹ دور کرتا ہے“ کے مصداق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع کشمیر ہاوس جسے آزاد کشمیر کی موجودہ مسلم لیگی حکومت کے وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے جموں کشمیر ہاوس کا نام دے کر نئی دہلی میں واقع جموں کشمیر ہاوس کے ”ہم پلہ یا ہم وزن“ قرار دے دیا ہے جو ہر دور میں آزاد کشمیر کے صدر‘ وزیراعظم اور دیگر حکومتی شخصیات کی آماجگاہ رہا ہے جس میں ایک کی بجائے دو ریسٹ ہاوسز واقع ہیں۔ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے علاوہ سینٹ افسروں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے دفاتر اور رہائش گاہیں موجود ہیں۔ وزیر امور کشمیر سمیت پاکستان کے وفاقی وزراءجموں کشمیر ہا¶س میں آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی شان و شوکت کو دیکھتے تو رشک کرتے ہیں۔ پی پی پی دور میں راجیو گاندھی کی آمد پر اسی کشمیر ہاوس کے بورڈاتارے گئے تھے۔ وزیراعظم نوازشریف‘ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کے دور وزارت عظمیٰ میں اسی کشمیر ہاوس کے ایوان وزیراعظم سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے چند روز قبل جموں کشمیر ہاوس کے کثیر المقاصد ہال میں ایک بھرپور پریس کانفرنس منعقد کر کے ارکان کابینہ اور ممبران قانون ساز اسمبلی و آزاد جموں و کشمیر کونسل کے ہمراہ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ آزاد کشمیر کی حزب اقتدار قبل ازیں وزیراعظم نوازشریف پر اظہار اعتماد کی قرارداد مظفر آباد میں منعقد قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں منظور کر چکی ہے۔ اس قرارداد کے ایجنڈے میں شامل ہونے کے باعث اپوزیشن نے اجلاس سے واک آ¶ٹ اور بائیکاٹ کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے قرارداد کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ ہمارے ہاں اچھا کام بھی غلط طریقے سے کرنے کی عادت عام ہوتی جا رہی ہے۔ روز اول سے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے مصداق ننھی منی اپوزیشن کے ساتھ سوتیلانہ سلوک کر کے خود اپنے لئے سیاسی مسائل پیدا کئے ۔ اب حکومتی معاملات ہی نہیں کشمیر کاز کے لئے بھی حکومت اپوزیشن کو اپنے ساتھ بٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی اظہار یکجہتی کے لئے کی جانے والی پریس کانفرنس میں بعض حکومتی ممبران بوجوہ موجود نہ تھے لیکن خود حکومت کی حلیف جماعت اسلامی کے امیر اور قانون ساز اسمبلی کے رکن عبدالرشید ترابی بھی خاتون ممبر اسمبلی سمیت پریس کانفرنس میں موجود نہ تھے جس سے یہ بات ظاہر و باہر نظر آ رہی تھی کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر‘ پاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں و کشمیر اور حکومت آزاد کشمیر کا دور ابتلاءمیں ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور ڈاکٹر سید آصف کرمانی اس پس منظر میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو کھل کر طعن و تشنیع کا نشانہ بنا چکے ہیں لیکن عبدالرشید ترابی جیسے زیرک سیاستدان سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے اور اندرون و بیرون ملک اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے پر توجہ مرکوز کرنے کو اولیت دیتے ہیں۔ بہرحال امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور راجہ فاروق حیدر کے ساتھ ایک ندی کے دو ساحلوں کی طرح نباہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چودھری لطیف اکبر بار بار یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں نواز حکومت ختم ہونے پر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ غالباً اس پس منظر میں بھی راجہ فاروق حیدر نے پریس کانفرنس کر کے وزیراعظم نوازشریف سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کھل کر کہہ دیا کہ وزیراعظم نواز شریف کو غیر معروف طریقے سے ہٹانے کی کوششیں ملک کے لئے زہر قاتل ثابت ہوں گی۔ کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے کے لئے سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان ضروری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا واویلا فوری طور پر بند ہونا چاہئے۔ ملک کو اس وقت نوازشریف کی ضرورت ہے آر پار کے کشمیری ان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ کشمیر کمیٹی اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھایا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں چار سال کے دوران مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں نہ اٹھانے اور جنرل اسمبلی میں رسمی خطاب تک محدود رکھنے اور نریندر مودی کے ساتھ تعلقات پر کشمیری حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی روز بروز بگڑتی صورتحال اور کنٹرول لائن پر سرحدی خلاف ورزیوں میں اضافے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھانے میں خاصی تاخیر ہو چکی ہے اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے اسی باعث مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں اٹھانے کا جرا¿ت مندانہ مطالبہ کیا ہے۔ بقول ان کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حکومت پاکستان ہی ایسا کر سکتی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت اس کی مجاز نہیں ہے۔
”یہ بھی اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے“

ای پیپر دی نیشن