”ہمارا المیہ“

فرائض کی ادائیگی سے اغماض اور حقوق پر زور، زبردستی ، پاکستانی عوام کا ایک بہت بڑا المیہ ہے، لاپرواہی ۔ غفلت شعاری ہمارے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ لمحہ موجود کا ”67 سالہ بوڑھا پاکستان“ دہشت گردی ، بدامنی، ٹارگٹ کلنگ سٹریٹ کرائمز اور معیشت کی ایک معتدبہ نااہلی جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اگر مسائل ہماری ”قیادت“ کی غلط روی کانتیجہ ہیں تو سوچنے والی بات ہے کہ ”بطور عوام“ ہماری ذمہ داریاں کیا تھیں۔ جو بوجوہ ہم ادا نہ کر سکے۔ کیاہم سوچنے کوتیار ہیں کہ ہماری کاہلی۔ کام چوری اور غفلت شعاری کی عادات اس ملک کوکتنا نقصان پہنچا چکی ہیں؟ ہر بات پر ”حکمرانوں “ کو کوسنا اچھا ضرور لگتا ہے مگر ذمہ داریوں کے تعین میں ہم ایک بڑی غفلت کا اندراج کروانا بھول جاتے ہیں کہ ہمارے رویے کیا تھے۔ ہماری ذمہ داری کی حدود کیا ہیں۔ ہماری سوچوں پر طمع ، ہوس نے کتنا گھیر ڈالے رکھا۔ لمحاتی فوائد، عارضی مفادات کی خاطر دائمی مصائب اور کبھی نہ ختم ہونے والی مشکلات کو اپنا قدر ”عوام“ نے خود بنایا۔ اس معاشرے کے ساتھ ماضی میں ہم نے بہت خراب ، بدترین سلوک کیا۔ بدعنوانی کی نشاندہی کرنا تو دور کی بات ہم خود بدعنوانی کا حصہ بنتے گئے ۔ ہماری آئین پر ستی خوبصورت ، مگر قانون شکنی ہمارے وجود کا ایک بدنما لیبل بن گئی۔ عالمانہ طرز تخاطب پسندیدہ تو ٹھہرا مگر عمل سے خالی وجود معاشرے کی فلاکت زد گی ضرور بڑھا گئے ۔ ہم عمل کی بجائے الفاظ کے قیدی بن کرجی رہے ہیں۔ کچھ لوگ نجانے (لمبی لمبی تقاریر، وعظ ، نصائح) میں اپنے الفاظ اتنے بے دریغ کیوں لٹاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لفظ ادا ہونے کے بعد انسان کو خالی برتن جیسا بنا ڈالتے ہیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی جو اخلاقی ، دینی تصویر مختلف مناظر ، مختلف ممالک میں دیکھنے ، پڑھنے ، سننے کو مل رہی ہے بطور قوم ہم خود اس کو تباہی سے مبرا قرار نہیں دے سکتے۔ ہمارا قول ، ہمارے عمل کے متضاد ہے۔ ہم عملی طور پر فسق و فجور کی محفلوں میں شرکت کرتے اور بداعمالیوں کی بڑھوتری میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں مگر منہ زبانی مذمت کرتے نہیں تھکتے۔ آخر ہم نے خود کو ”عارف باللہ“ بھی تو ثابت کرنا ہے۔ اظہار حق میں کبھی تامل نہیں کرتے مگر خود کی زندگیوں میں اس کا نفاذ ہم کو گوارہ نہیں۔ دوسروں کو اعمال فاسدہ اور افکار باطلہ سے روکتے مگر ایک روپے کی خاطر آرام سے جھوٹ بول کر تجارتی مال بیچ ڈالتے ہیں۔ ہمارے رول ماڈل شجاعت و ذاتی کردار کی بے مثل داستانیں رقم کرنے والے درخشندہ اسلاف نہیں بلکہ ازلی دشمن کی (فلمیں ) بند ڈبوں میں قتل و غارت کی کہانیاں سناتے “ ڈبہ بند ہیرو“ ہیں ایسے ”ہیرو“ جن کی بہادری چیک وصول کرکے ڈبے میں شروع ہوتی اور ڈبے میں ہی اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ ہمارے علماءکرام کے کلام، معجزبیان خوبصورت لفظوں کا گلدستہ تو ضرور ہیں مگر ان میں تاثیر نہیں۔ منافقت ہماری تباہی کی بڑی وجہ ہے۔ ہمارے نزدیک حق حلال، دیانتداری کی بجائے بے ایمانی ، رشوت ستانی وقت کی آواز اور بہترین حکمت عملی ہے۔ ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں، غربت اگر بڑھ رہی ہے۔ چوری ڈکیتی کی وارداتیں رکنے میں نہیں آر ہیں تو اس کی وجہ موجود وسائل کی تقسیم مساوات کے اصول کو روندنے کی پالیسی ہے۔ مساوات ایک آزاد ، منصفانہ سوسائٹی کی بنیاد رکھتی ہے مگر یہاں ہر آدمی دوسروں کو دھونس ،دباﺅ ، رکاوٹ کے پل تعمیر کرنے میں مگن رہتا ہے۔ اس ملک کی بھاری اکثریت چند فیصد اشرافیہ کے استحصالی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے تو اس صورتحال کا بوجھ ، ہماری ذمہ داری کی ناقص ادائیگی پر بھی پڑتاہے کیونکہ ہم اپنے حق نمائندگی انجام دینے میں کلیتاً ناکام رہے ہیں۔ ہم اپنے فرض سے دانستہ غفلت باعث اس حال کو پہنچے ہیں ۔ ہم سیاستدانوں کے لئے محض ووٹ دینے والی ” اے ٹی ایم مشین“ کی حیثیت پر قناعت کرکے بیٹھے ہیں تو برپا ، تماشے ، بربادی میں ہمارا حصہ تو ”قیادت “ سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے گھر کی چابیاں 67 برس چوروں کے ہاتھوں میں رہی ہیں تو قصورہمارا بھی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دل ویران ہیں ۔ خود غرضی نے ہمارے دماغ جکڑ رکھے ہیں ۔ ہم اپنی اصلاح کے لئے ایک قدم بھی چلنا نہیں چاہتے مگر دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس ملک کے لئے اپنا خون بہا دیں ۔ ہجوم طفلاں کا حصہ بنے ۔ دلدل میں زیتون کاشت کرنا چاہ رہے ہیں کیکر بو کر میٹھے آم کھانے کی چاہت لئے دن گزار دیتے ہیں ۔ حیات دو طرفہ خلوص، روابط کے ملاپ سے پرسکون ہوتی ہے۔
زندگی کو ایک سرد تحریک کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ کیاکچھ نہیں ہے ہمارے پاس۔ کھربوں کے معدنی ذخائر ، خوبصورت جنت نظیر علاقے ، ذاتی زندگیوں میں بھی نہ روپے پیسے کی کمی ہے۔ نہ نیک اولاد کی ۔ پھر بھی بے چین، بے سکونی، ہر وقت مضطرب کیے دیتی ہے تو یقناً یہ المیہ ہے۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ اخلاقی اقدار کی پامالی پر خاموشی سے راستہ بدل جاتے ہیں میڈیا کی بے ہودگی پر حکومت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں مگرخود سے فحاشی و عریانی کے سد باب کے لئے زبانی وعظ ، تنقید کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ” کسب حلال“ کی بجائے حسب توفیق پر قناعت کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ یہ کاہلی سستی کے علاوہ حالات سے فرار کی سب سے دلکش ، مقبول عام”پروڈکٹ “ ہے ۔ جھوٹ ہماری زندگی کا دیباچہ ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ”وعظ “ کی کرسی پر ہم کچھ اور قامت کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ذاتی معاملات میں ہمارا ”جغرافیہ “ کلیتاً تبدیل ہو جاتا ہے ۔ سچ بولنے پر زور ضرور دیتے ہیں مگر سچ بولنے کا خود میں یارا نہیں پاتے۔ سکون ، اطمینان قلب چاہیے تو ان المیوں کو اپنی زندگی سے نکال دیں۔ سچ بولیں ، سچ بولنا شعار بنالیں ۔ سچ کو فروغ دیں ۔ ہماری زندگی کا دیباچہ سچ ، حق کی بالادستی ہونا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن