23 فروری 1991کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے چھوٹے سے گاؤں کنن کے قریب پوشپورا میں میں اجتماعی آبرو ریزی کے واقعہ نے انسانیت کو شرما کر رکھ دیا۔آج بھی اس گاؤں کے لوگ انڈین فوج پر اس رات گاؤں کی عورتوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے واقعہ کے خلاف پچھلے 26 برس سے انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔سرینگر میں ریاستی حکومت کے وزیر نعیم اختر سے جب میں نے اس کیس کے بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ کشمیر جیسے حالات میں کئی دفعہ حقیقت پر دھول جم جاتی ہے۔
اس رات جب زرینہ اور زونی میں دن بھر کی مصروفیات اور گہما گہمی کے بعد زرینہ اور زونی (فرضی نام) رات کو سونے کی تیاری کر رہی تھیں، کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ اہل خانہ نے دروازے پر فوج کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ کریک ڈاؤن ہے۔حسب معمول مردوں کو الگ کر دیا گیا اور فوج گھروں میں گھس آئی لیکن اس کے بعد جو ہوا اسے یاد کرتے آج بھی زونی کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
'ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ فوج آگئی۔ انھوں نہ مردوں کو باہر نکال دیا۔ کچھ نے ہمارے سامنے شراب پی۔ زرینہ کے بقول اْن کی شادی کو صرف 11 دن ہوئے تھے۔وہ اسی دن میکے سے واپس آئی تھی۔ فوجیوں نے اس کی ساس سے پوچھا کہ یہ نئے کپڑے کس کے ہیں۔ساس نے کہا یہ ہماری نئی دلھن ہے۔ زرینہ کی دو سال کی بچی گود میں تھی۔ ہاتھا پائی میں وہ کھڑکی سے باہر گر گئی۔ وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئی۔ تین فوجیوں نے اسے پکڑ لی قمیض پھاڑ دی۔ اس کا کہنا ہے اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا کیا ہوا۔ وہ پانچ لوگ تھے۔ ان کی شکلیں مجھے اب بھی یاد ہیں۔'ہمارے ساتھ صرف زیادتی نہیں ہوئی، ایسا ظلم ہوا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ آج بھی فوجیوں کو دیکھ کر ہم ڈر سے تڑپ جاتے ہیں۔'
یہ وہ عرصہ تھا جب کشمیر میں ہند مخالف مسلح تحریک شروع ہو چکی تھی، اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے انڈیا کی طرف سے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری تھا۔اس سلسلے میں جگہ جگہ 'کارڈن اینڈ سرچ آپریشن' ہوا کرتے تھے، جو ویسے اب تک ختم نہیں ہوئے۔ انھیں عام زبان میں 'کریک ڈاؤن' کہا جاتا ہے۔ایک علاقے کو فوج گھیرے میں لے لیتی ہے، اور اس کے بعد علاقے کے تمام مردوں کو گھروں سے نکال کر کسی ایک جگہ پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گھروں کی، جن میں صرف عورتیں اور بچے ہوتے ہیں، تلاشی لی جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ مردوں کی شناختی پریڈ ہوتی ہے جس میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو الگ کیا جاتا ہے۔
اب کچھ نوجوان کشمیری خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اسی دھول کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 2013 میں کچھ کشمیری عورتوں نے کنن پوشپورا کے حوالے سے مقامی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی۔نتاشا راتھر ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے چار دیگر نوجوان کشمیری خواتین کے ساتھ مل کر کنن پوشپورا اجتماعی ریپ پر ایک انعام یافتہ کتاب بھی لکھی ہے۔'یہ ایک اتنا بڑا اجتماعی ریپ کا کیس ہے جس میں متاثرین ہمت کر کے سامنے آئے ہیں اور اس میں بہت سے شواہد موجود ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ یہ کیس دوبارہ کھولا جائے۔'
کیس دوبارہ شروع ہوا، اور ایک طویل اور مشکل عمل کے بعد کشمیر کی ہائی کورٹ نے متاثرین کو زرِ تلافی دینے کے احکامات جاری کیے۔ ریاستی حکومت نے پہلے کہا کہ اسے یہ فیصلہ منظور ہے، لیکن اس کے بعد اس فیصلے کو انڈیا کی سپریم کورٹ میں چیلینج کر دیا گیا جہاں یہ کیس اب بھی جاری ہے۔انڈین فوج پہلے سے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس بار ہم نے ان سے انٹرویو کی درخواست کی تو انھوں نے ہمیں ایک بیان بھیجا۔
فوج کے ترجمان نے ہمیں بتایا کہ ان الزامات کی تین بار آزادانہ تفتیش ہوئی اور متضاد بیانات کی وجہ سے پولیس نے یہ کیس بند کر دیا، لیکن ایک مقامی عدالت ملزمان کی شناختی پریڈ کرانے کا حکم دے چکی ہے جس پر عمل ہونا ابھی باقی ہے۔
حکومتی اہلکار تو محتاط اور اشاروں کی زبان استعمال کرتے ہیں لیکن سب نہیں۔ہم خواتین کے حقوق کے ریاستی کمیشن کی سربراہ نعیمہ احمد مہجور سے ملے تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ان کی نظر میں ان گاؤں والوں کے ساتھ یہ جرم ہوا ہے اور اسے ثابت کیا جانا چاہیے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت اس عمل میں دخل اندازی نہیں کر سکتی۔
(بی بی سی اردو)