امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺارشادفرماتے ہیں:جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تھوڑے رزق (اور آمدن )پر راضی رہے حق تعالیٰ بھی اسکی جانب سے تھوڑے عمل پر راضی ہوجاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ) امام محمد غزالی فرماتے ہیں کہ اگر انسان پانچ باتوں کا التزام کرے تو اس میں یہ وصف جمیل پیدا ہوسکتا ہے۔ (۱) اپنے اخراجات میں کمی کرے اور ضرورت کی مقدار سے زیادہ خرچ نہ کرے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : جو شخص اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے وہ مفلس وتنگ دست نہیں ہوتا۔ (۲)اگر بقدر ضرورت میسر ہوتو آئندہ کی فکر میں ہلکان نہ ہوتا رہے ، شیطان انسان کو ہمیشہ آئندہ کے اندیشوں میں مبتلاء رکھتا ہے اورانسان جائز اورناجائز کا خیال کیے بغیر اپنے سرمایے (اور اکائونٹ) کے اضافے میں مگن رہتا ہے جب انسان اسکے وسوسے کا شکار ہوجاتا ہے تو وہی شیطان انسان کا مذاق اڑاتا ہے کہ دیکھویہ بے وقوف آئندہ کی کسی تکلیف کے ڈر سے جو موہوم ہے، اس وقت کی یقینی مشقت اورتکلیف اٹھارہا ہے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنے (اعصاب کے)اوپر زیادہ غم سوار نہ کرو، جو مقدر ہے وہ ہوکر رہے گا، اورجتنی روزی تمہاری ہے وہ آکر ہی رہے گی ، قرآن پاک میں اس حقیقت کو آشکار کیاگیا ہے کہ جورزق کے پاک ذرائع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اس بندئہ مومن کو وہاں سے رزق عطاء فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ،(۳) انسان اس امر پر غور وفکر کرے کہ قناعت کا وصف حاصل ہونے کی وجہ سے لوگوں سے استغناء کی کتنی بڑی عزت حاصل ہے اورحرص وطمع کی وجہ سے سوسائٹی کے سامنے کتنا ذلیل ہونا پڑتا ہے ۔ اس بات پر بڑے اہتمام سے غور کرنا چاہے اس کو ایک تکلیف برداشت کرنی ہے ، یا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت یا اپنے نفس کو ناجائز چیز سے روکنا ، یہ جو دوسری تکلیف ہے، اس پر تو اللہ رب العزت کے ہاں ثواب اوراجر کا وعدہ بھی ہے جبکہ پہلی آخرت کا وبال ہے۔معروف مقولہ ہے کہ جس سے تو استغناء کرے اس کا ہمسر ہے، جس کی طرف احتیاج کرے، اس کا قیدی ہے اورجس پر احسان کرے اس کا حاکم ہے ،(۴)مال کی کثرت اوراس کی محبت میں مبتلاء ہونے پر جو نقصانا ت ہیں انسان کو ان پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے ۔(احیاء العلوم : امام غزالی)