بات تو معمولی تھی لیکن جب یہ بڑھ جائے تو پھر منہ سے نکلی بات دور تک جا پہنچتی ہے ۔ ایسی ہی صورت حال یہاں بھی تھی کہ سڑک پر جگہ جگہ گندہ پانی کھڑا تھا اور وہاں سے گزرنے والوں کے لئے اپنے کپڑوں کو گندے پانی کی چھینٹوں سے بچانا خاصا دشوار ہو چکا تھا۔ نمازی اور پرہیز گار لوگوں کو یہ صورت حال ہمیشہ مشکل میں ڈالے رکھتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ سیوریج کا پانی گلی محلوں ہی میں نہیں ، سڑکوں پر بھی بہتا دکھائی دیتا ہے ۔ دوسرے لوگوں کی طرح وہ صاحب بھی کپڑوں کو بچاتے ہوئے مسجد کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ایک موٹر سائیکل کے پہیئے سے اٹھنے والے گندے پانی کے چھینٹوں سے شلوار ہی نہیں قمیض بھی آلودہ ہو گئی ۔ چنانچہ وہ صاحب چیخ اُٹھے ۔ او!شریف زادے،دکھائی نہیں دیتا کہ گندہ پانی بہہ رہا ہے تم آرام سے گزرو۔ میرے کپڑے خراب کر دئیے، اب میں مسجد جا کر نماز کیسے ادا کروں۔ موٹر سائیکل پر نوجوان اپنے بزرگ کو بٹھائے جا رہا تھا ، وہ رک گیا اور معذرت کرتے ہوئے وضاحت کرنے لگا کہ میں تو احتیاط اور آرام سے جا رہا تھا ۔ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ ایک کھڈے میں پہیہ لگا تو آپ کے کپڑے خراب ہو گئے ، میں معافی چاہتا ہوں ۔ اس نوجوان کے ساتھ بزرگ نے بھی ان صاحب سے معذرت چاہی اور کہا کہ بیٹرہ غرق ہو ، اِن واسا والوں کا ، جن کی نا اہلی اور ناقص کار کردگی کی وجہ سے شہر میں بیشتر مقامات پر یہی صورت حال دکھائی دیتی ہے ۔ عالم یہ ہے کہ برسوں سے گلیوں اور سڑکوں پر گندے پانی کا کھڑا ہونا، سیوریج سسٹم کی خرابی سے لوگ مستقل پریشان رہتے ہیں۔ مرمت اور صفائی کے نام پر بھاری رقوم ہرسال ہڑپ کر لی جاتی ہیں ، عوام کو اس پریشانی سے نجات کا کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا ۔ افسر شاہی اس محکمے کو لے ڈوبی ہے ، عام آدمی کی تو بات ہی کیا، اچھے خاصے اثرو رسوخ والے بھی ان کی کارکردگی پر تنقید کرتے اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ تو مسائل پیچیدہ ہیں، مزید ستم یہ ہے کہ برسوں سے ان مسائل کو احساس ِذمے داری سے حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ حالت یہ ہے کہ گنجان آبا د یوں کے علاوہ اچھے خاصے علاقوں میں بھی لوگوں کو پریشانی رہتی ہے گندے پانی کی وجہ سے ہر وقت فضا آلودہ اور تعفن پھیلا رہتا ہے ۔ افسران تک شکایتوں کا انبار پہنچتا ہے ، پھر کوئی پلاننگ نہیں ہوتی ۔ اس محکمے کے ایم ڈی اور ان کی ٹیم کی کارکردگی مسلسل ہدف ِتنقید بنی ہوئی ہے ، اس کے باوجود ان کے خلاف اعلیٰ سطح پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ، واسا ہیلپ لائن 1334غیر فعال ہے ،ماتحت عملہ بھی بے خوف ہو چکا ہے ، اس صورتحال پر وزیر اعلیٰ یا پھر ہائوسنگ کے ہر د ل عزیزوزیر محمود الرشید ہی کوئی ایکشن لیں تو شاید بات بن جائے ۔
پچھلے کئی برسوں سے شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ ٹیوب ویلوں سے جو پانی روزانہ لوگوں کے گھروں تک پہنچتا ہے ، وہ ناقص سیوریج کے پانی سے مل کر بدبو دار اور آلودہ ہوتا ہے ۔ یہ ایسی پریشانی ہے کہ لوگوں کو صحت اور صفائی کے حوالے سے صورت حال عذاب بنی ہوئی ہے ۔ واسا کے بل (بشمول سیوریج صفائی)تو شہری مستقل ادا کر رہے ہیں لیکن اس کے بدلے میں جو سہولت ہے ، وہ سہولت نہیں زحمت بنی ہوئی ہے ۔ بعض علاقوں میں صاف پانی کی سپلائی کا بھی مسئلہ پریشان کن بنا ہُوا ہے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے لوگ پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ گندے اور بدبو دار پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی ہے ۔ جن علاقوں میں فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں ، وہاں بھی صورتحال یہ کہ ایک انار اور سو بیمار والی کیفیت ہے ۔ ان کی مستقل دیکھ بھال کا کوئی بندوبست نہیں فلٹریشن کے کام پر توجہ نہیں دی جاتی ۔
تیری کون سی کل سیدھی ہے؟
Jun 08, 2020