فون کی گھنٹی بجتی ہے اسلم قریشی کا فون تھا، فون اٹینڈ کیا وہ اپنے روایتی انداز میں بولے ارے حافظ صاحب کہاں غائب ہیں، بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی، جواب دیا قریشی صاحب میچز نہیں ہو رہے، میچز ہوں گے تو چکر لگے گا ملاقات بھی ہو گی اور چائے بھی پی جائے گی۔ ویسے بھی ان دنوں کرونا ہے۔ معمول کی زندگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ چونکہ آپ سینئر سٹیزن ہو چکے ہیں اس لیے دفتر بھی نہیں آ رہے ہوں گے۔ یہ جملہ سنتے ہی اسلم قریشی کی آواز بدل گئی۔ اچانک ان کی آواز میں خوشی کی جگہ پریشانی کا عنصر نمایاں ہو گیا۔ کہنے لگے یار حافظ صاحب دفتر جاتا تھا تو وقت گذر جاتا تھا اب مسلسل گھر ہوں تو پریشانیاں گھیرے رکھتی ہیں۔ ملازمت کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ آپکو پتہ ہے کہ کرکٹ بورڈ سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔ کوئی پتہ نہیں کسی دن میری بھی خبر آ جائے کہ ملازمت ختم کر دی گئی ہے۔ ان حالات میں دل اداس رہتا ہے۔ بیوی بچوں کے بارے سوچتا رہتا ہوں تو پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ پھر اچانک مسکراتے ہوئے کہنے آپ کے پاس خبریں ہوتی ہیں چیک کریں کہیں فہرست میں میرا نام تو نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا یار قریشی صاحب کیا بات کرتے ہیں آپ ہمیشہ آؤٹ سوئنگ سے بڑے بڑے بلے بازوں کو گراؤنڈ چھوڑنے پر مجبور کر دیتے تھے جو آپکا نام اس فہرست میں ڈالے گا وہ آپکی ایک آؤٹ سوئنگ کی مار ہے۔ قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگے یار اب وہ زمانہ کہاں رہا، اب بھاگنا تو دور کی بات تھوڑا چل لوں تو خوش قسمت محسوس کرتا ہوں، پھر کہنے لگے میں گھر میں تھوڑی بہت ایکسر سائز کرتا رہتا ہوں۔ بس یار حافظ صاحب بیٹے کی نوکری کے لیے کوشش کرتا رہتا ہوں کہ اس کی کہیں ملازمت ہو جائے تو ہمارا سہارا بن جائے گا۔ بیٹی کی شادی کرنی ہے بہت جلد ان شائ اللہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ اس سے پہلے اگر بیٹے کو نوکری مل جائے تو کام آسان ہو جائے گا۔ میں نے کہا یار قریشی صاحب کئی لوگ آپ کے ساتھ کرکٹ کھیلے ہیں انہیں کیوں نہیں کہتے، کہنے لگے کوشش کی تھی۔ اب اسلم قریشی کی کسی کو ضرورت نہیں ہے تو کوئی اس کا کام کیوں کرے گا۔ چھوڑیں کن باتوں میں لگ گئے ہیں پہلے ہی اتنے دنوں بعد بات ہو رہی ہے۔ یہ کرونا ختم ہو جائے میچز ہوں گے تو آپ نے ضرور چکر لگانا ہے۔ اسی طرح کچھ اور باتیں ہوئیں اور پھر ملاقات کی امید پر فون بند ہو گیا۔ کرونا نے مہلت نہیں دی، معمول کی سرگرمیاں بحال نہیں ہو سکیں اور اسلم قریشی بیٹے کی ملازمت اور بیٹی کی شادی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہلخانہ کو صبر جمیل عطائ فرمائے۔
اسلم قریشی ہنس مکھ، سادگی پسند، خوش اخلاق، ایماندار انسان تھے۔ گذشتہ روز انہیں سپرد خاک کیا گیا ہے اسلم قریشی اس مٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے جہاں سب نے جانا ہے وہ خوش قسمت ہیں جنہیں کفن اور دفن نصیب ہوتا ہے، چند لوگ دعا کرنے والے ہوتے ہیں۔ اسلم قریشی ملکی کرکٹ کا بڑا نام تو نہیں تھے لیکن ایک اچھے اور سلجھے ہوئے وضعدار انسان ضرور تھے۔ چہرے پر مسکراہٹیں سجائے اپنی جوانی کے زمانے اور کھیل کے میدان کے دلچسپ واقعات اتنے بہترین انداز میں سناتے تھے کہ وقت گذرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ سابق ٹیسٹ اوپنر محسن حسن خان سے ان کی بہت اچھی دوستی تھی(جب کرکٹ کھیلا کرتے تھے)۔ محسن خان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ کرتے، اسلم قریشی کا تعلق اس قبیلے سے تھا جو موبائل کے بجائے انسانوں کے ساتھ وقت گذارنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کی وفات پر قومی ٹیم کے سابق مینجر اظہر زیدی کا فون آیا بہت افسردہ تھے زیدی صاحب سے بھی اسلم قریشی کی اچھی دوستی تھی۔ آغا زاہد کے ساتھ انہوں نے بہت اچھا وقت گذارا وہ بھی بہت دکھی تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے نے بھی غم کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے اسلم قریشی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ روز ایک دوست کا فون آیا کہنے لگا حافظ صاحب کیا اسلم قریشی کا کوئی حق نہیں کہ کرکٹ بورڈ اس کے بیوی بچوں کا خیال رکھتے ہوئے آسانی پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ اس کے انتقال پر غم کا اظہار کرنے والوں کو یہ کون بتائے گا کہ اس کے بیوی بچوں کو ضرورت ہے اگر اسلم قریشی کے جانے کا غم ہے تو جس غم میں وہ دنیا سے گیا ہے اسے دور کرنے کے لیے کچھ کریں۔ اس کو اپنے بیروزگار بیٹوں اور بیٹی کی شادی کی فکر تھی۔ وہ بیٹی کی منگنی کر چکا تھا اب شادی کرنا تھی۔ کرکٹ بورڈ افسران اپنے فائدے کے لیے ادارے کو حکومت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو اسے پرائیویٹ ادارے کی طرح چلاتے ہیں یہ غم کا اظہار دکھاوے کے لیے ہے۔ لاہور میں عنایت اللہ اور خالد جمال کا انتقال ہوا کرکٹ بورڈ نے ان کے لیے کچھ کیا ہو بتا دیں، کراچی میں رضوان کینسر سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا اس کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ کرکٹ بورڈ صرف سلمان نصیر، جنید ضیائ ، ایزد سید، بابر حمید، وسیم خان، عصر ملک، ندیم خان اور ان جیسے دوسرے طاقتور اور بااثر افراد کے لیے ہے۔ سلمان نصیر کو لیگل ڈیپارٹمنٹ سے سی او او بنایا جا سکتا ہے تو اسلم قریشی کے بیٹے کو نوکری کیوں نہیں دی جا سکتی، جنید ضیائ کو اگر براہ راست اعلیٰ عہدے پر لگایا جا سکتا ہے تو اسلم قریشی کے بیٹے کو بھی ملازمت دی جا سکتی ہے، ایزد سید کو بغیر کسی تجربے کے ڈائریکٹر اکیڈمیز مقرر کر دیا گیا تھا تو پھر اسلم قریشی کے بیٹے کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے۔ یار حافظ صاحب اگر کرکٹ بورڈ مکمل طور پر غیر سرکاری ادارہ ہے تو پھر وزیراعظم پیٹرن کیوں ہیں، پاکستان سپورٹس بورڈ کی ویب سائٹ پر کرکٹ بورڈ کیوں موجود ہے، گورننگ بورڈ میں بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے نمائندے کا کیا کام ہے، پھر اس کا آئین وفاقی کابینہ کیوں منظور کرتی ہے۔ شاید حکومت کو ہوش آئے اور وہ پوچھے کہ ڈائریکٹرز کی تنخواہیں مقرر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔ جب وزیراعظم کرکٹ بورڈ میں دو افراد کو نامزد کرتے ہیں تو پھر یہ غیر سرکاری کیسے ہو جاتا ہے۔ جب کسی نے چیئرمین لگنا ہے تو حکومت کی طرف سے اور جب کمزور ملازمین کو فائدے دینے کی بات آتی ہے تو کرکٹ بورڈ کو پرائیویٹ ادارہ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہنے لگے اگر ان میں سے کسی کو احساس ہو تو شاید ہمارے پیارے دوست اسلم قریشی کے غموں کو بانٹ لیں اس کے بیروزگار بیٹوں کے لیے کچھ کر دیں پھر کہنے لگے نہیں یہ نہیں ہو سکتا یہ بورڈ وسیم خان، سلمان نصیر اور اس جیسے دیگر افراد کے لیے ہی ہے۔ جو طاقتور ہیں بااثر ہیں، جو پنشن بھی لیتے ہیں اور تنخواہ بھی لیتے ہیں یہ کچھ نہیں کریں گے یہ کچھ نہیں کریں گے۔