بھارتی فوج ،پنجاب پولیس اور بھارتی سیکورٹی فورس کے تقریباََ ڈیڑلاکھ اہکارروں نے ٹینکوں ،توپوں،بھاری آتشیں اسلحہ اور ہیلی کاپٹرزکی مدد سے لفٹیننٹ جنرل سنگھ دیال، لفٹیننٹ کرشنا سوامی سندرجی اور میجر جنرل کلایپ سنگھ پراڈ کی قیادت میں یکم جون 1984کو حملہ کرکے 6جون تک سکھ مذہب کے مقدس ترین مقام ہر ی مند رصاحب جس کو گولڈن ٹمپل بھی کہتے ہیں،اکال تخت اور پوری مقدس عمارتوں کو گوہوں سے چھلنی کردیا اس وقت بھارتی فوج ایس اے ویدیا 1983سے 1986تک عرصہ کے لیے سربراہ تھے بھارتی فوجی کے ہاتھوں دربارصاحب امرتسر کی بے حرمتی کو 36 سال بیت گئے مگر یہ زخم کبھی مندمل نہ ہو سکے ہر لمحہ یہ منظر سکھوں کی آنکھوں میں اشک لے آتاہے اوران کے خون کو گرما دیتاہے مگر ہر جون سکھ قوم کے لیے انتہائی دکھ بھرا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت اور پنجاب سرکار نے ایک سازش کے تحت 6 جون کو گورو ہر گوبند کا جنم دن بنادیا تاکہ 6جون کو سکھ آپریشن بلیوسٹار کے نتیجہ میں ہونے والے ظلم اور سانحیات کو چھوڑکر گورو صاحب کے گور پرب کی تفاریب میں مشغول ہوجائیں۔آپریشن بلیوسٹار جسے پنجابی میں سا کانیلادھارا اور جون گھلوگھارا بھی کہتے ہیں میں سینکڑوں سکھ جوان ،بزرگ ،عورتیں اور بچے مارے گئے ۔اس گھلوگھارا یا قتل عام میں بی جے پی اثرومنی اکالی دل اور کانگرس برابر کی حصہ دار تھی نی جے پی کی قیادت نے دہلی میں اندرا گاندھی جو اس وقت وزیر اعظم تھی کو دربارصاحب پر فوجی حملے کی صورت میںمکمل حمایت کا یقین دلایا ،پرکاش سنگھ بادل نے اپنے سسرالی رشتہ دار رمیش اندر سنگھ گریوال مغربی بنگال سے تبادلہ کرواکے امرتسر کا اپنی کمشنر ثعینات کرایا بعدازاںپر کاش سنگھ بادل نے اسی رمیش کو اپنا چیف سیکرٹری (چیف سکتر)بنایا اور بعد ازاں ان کی خدمات کے اعتراف میں مرکزی حکومت سے تحسین کا بھی کیا۔یہ اس طرح حقیقت نظرآتی ہے کہ اس سانحہ کے بعد 9سال تک امیش امر تر کا ڈی سی رہا۔ڈپٹی کمشنر رمیس اس لیے اہم ترین مہروں میں سے ایک تھاکہ اسی نے فوج کو امرتسر دربارصاحب میں داخل ہونے کی اجازت دنیا تھی۔بی بی پرسیتم کور اس واقعہ کی چشم دیلاگواہ تھی وہ رشپال سنگھ کی بیوی اور 18دن کی عمر کے بچے من پر یت سنگھ کی ماںتھی بچہ جب ماں کے سینے سے چیکا ہوتا ہے تو وہ دنیاکی محفوظ ترین اور آرام دہ جگہ محسوس کررہاہوتاہے من پریت ایسی ہی آرام دہ گھڑیوں کی لذت لے رہاتھا کہ بھارتی فوج کی ایک گولی اس کی پشت میںداخل ہوئی اور پریتم کے سینے کے اندر چلی گئی وہ زمین پرگری ہوئی تھا اس کا 18دن کا بیٹا اس طرح اس کے سینے پر اندی نیند سوچکاتھااس اثنا میں ایک گولی رشپال سنگھ کے سرپر لگی اور وہ اپنی بیوی کے سرپہ گرکرتڑپناشروع کردیا مصوم بیٹا اور شوہر جان بحق ہوئے چارسال جیل میںرہی جب تک وہ واپس گھرلوٹی اس کے تمام بھائیوں کو بھی مار دیاگیاتھا ۔پریتم کو رنے بتایا کہ اندر اگاندھی بہت پہلے سکھوں کو سبق سکھانے کے لیے فوجی آپریشن کا فیصلہ کرچکی تھی۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اپنے دوسرے سنستوںیا ساتھیوں کے ساتھ روزانہ دربارصاحب میںدربار لگانے ہندو،مسلمان اور سکھ ان کے پاس اپنے مسائل لے کرآتے اور وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان مجبوراور غریب لوگوں کی مددکرتے ۔انہوںنے کسی دوسرے مذہب کے خلاف کبھی بات نہ کی وہ کسی ہندو کے خلاف نہ تھے وہ سکھوں کی پنجاب میں غلامی کی زندگی پسند کرتے تھے وہ مورچہ یعنی احتجاج ا س لیے کررہے تھے کہ ہندوستان میںسکھوں کو تیسرے درجے کے شہری کے طور پر زندہ رہنے پر مجبور کیا جارہاتھا ۔بغاوت ہمیشہ ظلم سے جنم لیتی ہے ۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈر انوالے نے کبھی خالصتان کامطالبہ نہ کیا ۔ان کا کہنا تھاکہ ہندوستان کی مرکزی حکومت فیصلہ کرے کہ انہوں نے سکھوں کو ساتھ رکھنا ہے ہے یا علیحد ہ کرناہے مگر بھارتی ایجنسیاں انہیں وکھ وادیعنی علیحدگی پسند اور دہشت گردثابت کرنے کے لیے ہرطرح سے کاروائیاں کررہی تھیں بسوں وے ہندؤں کو اتارکر مارنا خالصتان کی تحریک چلانا یہ سب الزام تھے اور جتنی بھی کاروائیاں ہوئی تھیں وہ بھنڈر انوالے کو بدنام کرنے کے لیے تھیں۔عرصہ دراز بعد سکھ قوم کو ایک دانش مند، دلیر اور عبادت گزار سکھ اور لیڈ ر ملاتھا مگر سکھ اس کی حفاظت نہ کرسکے ۔کئی لوگ آج بھی کہتے ہیںکہ اگر بھنڈرانوالہ نے شہید ہی ہونا تھا تو بادل خاندان کو مار کر پنجاب کی جان چھڑاجاتا مگر جنرنیل سنگھ نے ہمیشہ کہاکہ وہ بھرامار سیاست کے خلاف ہیں ۔بادل خاندان نے ہمیشہ چپلی جھاڑ یعنی ٹاؤٹ کی سیاست کی جس سے پنجاب برباد ہو کررہ گیا شرومنی گورودارہ پر بند ھک کمیٹی اور اکال تخت صاحب کی تشکیل سے لے کردھارمک معاملات میں بھی بادل نے مداخلت شروع کی ۔امرتسرگولڈ ن ٹمپل پر حملے کی تربیت بھارتی فوجیوں نے ڈیرہ دون کی پہاڑیوں میں دربار صاحب کا منظر بناکر حاصل کی۔ بھنڈ رانوالے بقول جگتا،سنگھ،گیان سنگھ سندھو اور دوسرے سکھ جرنیل سنگھ مذاکرات کے لیے تیار تھے مگرجب ایک لاکھ تیس ہزار فوجیوں نے دربار صاحب کو گھرے میں لے کر نوٹوں سمیت مقدس عمارت میں داخل ہوئے تو اس وقت جرتیل سنگھ نے تمام ساتھیوں کو پیغام دیاکہ آخری سانس تک لڑیں گے ۔جرنیل سنگھ نے دربار صاحب میں موجود تمام لوگوں کو باہر جانے جان بچانے کی اجازت دی اکثریتی لوگ چلے گئے مگر سینکڑوں لوگوںنے دربار صاحب کو چھوڑنے سے انکارکردیا۔جرنیل سنگھ ہمیشہ کہتے کہ کوئی سکھ غدارنہیںبس جس میںجتنی کھڑے ہونے کی طاقت ہے وہ اتنا کو کررہا بس اس کا اتنا کردار ہی کافی ہے ۔جرنیل سنگھ کی یہ آئیڈ یالوجی ہے جس سے ماسٹر تاراسنگھ ،گیانی کرتا،سنگھ انر سنگھ مجھیل،بلایوسنگھ اور سورن سنگھ جیسے لوگ بھی محروم تھے جس کی وجہ سے انہوںنے 1947میں سکھ قوم کو ہندوستان کی غلامی میں جھونک دیا۔1947 سے 1984 کا فرق یہ ہے کہ 1947میںسکھوں نے اپنے لیڈروں کی حفاظت کی مگر 1984 کا ایک سانحہ یہ بھی ہے کہ سکھ قوم سنت جرنیل سنگھ بھنبڈرانو الہ جیسے مہان لیڈر کی حفاظت نہ کرسکی۔جس کا نقصان سکھ قوم کئی دیائیوں تک محسوس کرتی رہے گی ۔کیونکہ بقوم پریتم کور عظم سکھ رہنماؤں کی پوری نسل بھارتی فوج نے ماردی اگلی سکھ لیڈروں کی نسل تھانوںکچہریوں عدالتوں مقوموں کا شکار ہوگئی تیسری نسل کو کھاڑکو ،وکھاوادی یعنی علیحدگی پسنددہشت گرد قراردے کر پولیس مقابعوں میں قتل کردیا گیااور اب چوتھی نسل ہے جو شراب اور ڈرگ کے نشہ میں پڑکر تباہ ہوچکی ہے ماجھاعلاقہ نے ہمیشہ دلیر جوان اور رہنما پید ا کیے اب بھی گورداسپور میںسنت جرنیل سنگھ بھنیڈرانوالے کی تصور کی ثرٹ پہنے سکھ نوجوان یہ پیغام دیتے ہیں کہ سنت جرنیل سنگھ ان کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے اور سکھ قوم ہندوسازش کو کبھی معاف نہیں کرے گی 31اکتوبر1984 کو ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے اندرا گاندھی کو گولیوں میں بعون ڈالا او ر سکھ اتہاس میں امرہوگئے کہ سکھ ہمیشہ لیڈروں کو مارتے ہیں مارکٹیوں پر خودکش حملے کرکے معصوم انسانوں کی جان نہیں لیتے۔دلیر لوگ معصوموں کو نہیں بلکہ اصل ذمہ داروں کو مارتے ہیں سکھوں نے گولڈن ٹمپل کے سانحہ میں موث تمام بڑے بڑے افسروں پر حملے کیے ۔بھارتی حکومت نے اس دور کی خط وکتابت اور دستاویزات کو دیکھنے کی اجازت نہ دی جس دن یہ دستاویزات سامنے آئیں تو سکھ اتہاس میں ایک اور تحریک شروع ہوگی۔