ریٹائر منٹ کے بعد مجھے، اہلخانہ کو پولیس سے خطرہ: جسٹس قاسم

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے شہری کی جائیداد پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وکیل نے کہا کہ پولیس والے درخواست گزار کے گھر گئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست زیر التوا ہے۔ آپ کو ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی کہ آپ جائیں اور پتہ چیک کریں، ایسا کرنے کا کس نے کہا تھا۔ ایس پی صدر نے جواب دیا کہ ڈی آئی جی لیگل سے مشاورت کی تھی کہ جا کر تم درخواست گزار کا پتہ چیک کرو؟ ایس ایچ او نے جواب دیا کہ کسی کی ہدایت پر نہیں بلکہ خود گیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اس نے نہ تھانے جاتے ہوئے اور نہ ہی واپسی پر رپورٹ کا اندراج کیا۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا ابھی ایس پی پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔ کیوں نہ انہیں چھ ماہ کی قید کی سزا سنا دوں۔ وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو بڑوں کو چھوڑ کر چھوٹوں کو پکڑ لیتی ہیں۔ ایس پی صدر حفیظ الرحمن نے درخواست کی کہ عدالت سے معافی چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو چھ ماہ کی سزا سنانی ہے۔ پولیس والوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ کل اپنے بیج وغیرہ اتار کر آنا، مجھے پتہ ہے کہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد پولیس نے میری زندگی اجیرن کر دینی ہے۔5 جولائی کے بعد مجھے اور میرے اہلخانہ کو پولیس سے خطرہ ہو گا۔ عدالت نے ڈی آئی جی لیگل کو کل طلب کرتے ہوئے ایس پی صدر حفیظ الرحمن کو کارروائی کے لیے تیار ہو کر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ کل تیار ہو کر آنا، تمہیں سزا سنانی ہے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس قاسم خان 19 فروری 2010ء کو لاہور ہائیکورٹ میں جج تعینات ہوئے تھے اور 5 جولائی 2021ء کو ریٹائر ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...