اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں قومی اقتصادی کو نسل کے اجلاس میں 2100 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کی منظوری دے دی گئی۔ آئندہ مالی سال 4.8 فی صد کے جی ڈی پی گروتھ ریٹ سمیت معاشی اعشاریوں کی منظوری بھی دی گئی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں سندھ کی جانب سے پی ایس ڈی پی میں صوبے کے لئے کم ترقیاتی فنڈز رکھے جانے پر احتجاج کیا گیا۔ جس سالانہ ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی گئی ہے اس میں 900ارب روپے پی ایس ڈی پی اور 1200ارب روپے کا صوبوں کا اپنا ترقیاتی پروگرام ہے۔ آئندہ مالی سال کا پی ایس ڈی پی رواں مالی سال سے38فیصد بڑا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر صوبوں کا ترقیاتی پروگرام 1235ارب روپے تھا جس میں 35ارب روپے کی کمی کی گئی ہے۔ وفاقی پی ایس ڈی پی میں 100ارب روپے زرمبادلہ کی شکل میں آئیں گے۔ جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام میں 192ارب روپے کی فارن فنڈنگ شامل ہو گی۔ آئندہ مالی سال کا ترقیاتی ’’آئوٹ لے‘‘ رواں سال سے کم وبیش 500ارب روپے بڑا ہے۔ ایس ڈی جیز کے لئے92 ارب روپے مختص کر دئیے گئے۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل اکنامک کونسل کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تمام وزرائے اعلیٰ اور دیگر این ای سی ممبران شریک ہوئے۔ اجلاس میں مالی سال 2021-22ء کے لئے میکرو اکنامک فریم ورک کی منظوری دی گئی۔ زراعت میں اضافے کا ہدف 3.5 فیصد، انڈسٹریل سیکٹر 6.5 فیصد جبکہ سروسز سیکٹر میں 4.8 فیصد ہوگا۔ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے مالی سال 2021-22 کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پیش کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے لئے ترقیاتی بجٹ نظر ثانی تخمینوں کے مطابق 1527 ارب روپے رہے گا۔ مالی سال 2021-22 کا ترقیاتی بجٹ 2100 ارب روپے مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔ پی ایس ڈی پی کا حجم 900 ارب روپے ہوگا۔ ان میں سے 244 ارب ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن، 118 ارب روپے توانائی، 91 ارب روپے آبی وسائل، 113 ارب روپے سوشل سیکٹر، 100 ارب روپے علاقائی مساوات ، 31 ارب روپے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر۔ 68 ارب روپے ایس ڈی جیز جبکہ 17 ارب روپے پروڈوکشن سیکٹر پر خرچ کیے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی کا محور انفراسٹرکچر کی بہتری، آبی وسائل کی ڈویلپمنٹ، سوشل سیکٹر کی بہتری، علاقائی مساوات، اسکل ڈویلپمنٹ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا فروغ اور ماحولیات کے حوالے سے اقدامات ہوں گے، اجلاس کو بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی میں حکومتی پالیسی کے مطابق ان علاقوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس ضمن میں جنوبی بلوچستان، سندھ کے بعض اضلاع، گلگت بلتستان کے لئے مناسب فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لئے بھی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح انضمام شدہ علاقوں کے لئے 54 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ سوشل سیکٹرز میں ہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے 42 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں ، ذرائع نے بتایا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ کیلئے ترقیاتی فنڈز کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں سندھ کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہیں اور کم بجٹ دیا گیا ہے صوبوں کے ساتھ مشاورت نہیں ہوئی اور وفاق میں بیٹھ کر فیصلے کر لئے گئے۔ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ وزیراعظم مان گئے‘ صوبوں کی مشاورت سے سکیم ہونی چاہئے۔ بعد میں کہا ایم این ایز‘ ایم پی ایز کی سفارش پر سکیم ڈالی جاتی ہے۔ سندھ میں 65 اور پنجاب میں 94 ارب کی سکیمز ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبوں کی مشاورت سے سکیمز کو شامل کیا جائے۔ آج منگل کو ایک اختلافی نوٹ جمع کرائیں گے۔ ہمارا احتجاج سندھ کیلئے کم بجٹ رکھنے پر ہوا ہے۔ دو جماعتیں جو خواب دیکھ رہی ہیں وہ کبھی پورا نہیں ہوں گے۔ ایک جماعت گورنر شاہی کا رونا رو رہی ہے۔ گورنر راج نہیں لگنے دیں گے۔