عمران کی پی ٹی آئی میں وہی حیثیت ہے جو بھٹو کی پی پی پی میں تھی: شاہ محمود قریشی
کیا عجیب اتفاق ہے کہ ہماری سیاست نصف صدی سے بھٹو اور اینٹی بھٹو فیکٹر کے اردگرد گھوم رہی ہے ۔ آج بھی لوگ برے یا بھلے الفاظ میں انہیں یاد کرنے پر مجبور ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بانی ایک طلسماتی کرشماتی شخصیت تھے۔ انہوں نے سکندر مرزااور جنرل ایوب کے زیرسایہ سیاست کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وزیر خارجہ بن گئے۔
وزیر خارجہ بھی ایسے کہ ان کی شہرت پاکستان سے نکل کر بیرونی دنیا تک پھیل گئی۔ مقرر تو تھے ہی زبردست ‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان کی تقریر آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہاں تو خیرانگریزی چلتی تھی پاکستان میں وہ اردو کے زبردست مقرر نہ ہونے کے باوجود بے باک عوامی مقرر بن گئے اور جذباتی انداز میں لاکھوں عوام کے دلوں کو گرمانے لگے۔ یوں چند سالوں کی سیاست کے بعد وہ وزیراعظم پاکستان بنے ان کے تین کارنامے تادیر انہیں زندہ رکھیں گے ۔ اول عوام کو سیاسی شعور دیا، دوئم پاکستان کو آئین دیا، سوئم پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری کیا اور اس کیلئے جاں بھی قربان کی۔ اب شاہ محمود قریشی کو حق ہے کہ وہ اپنے لیڈر عمران خان کو بھٹو کا ہم پلہ قرار دے رہے ہیں مگر صرف سیاسی حد تک یہ ہوسکتا ہے فی الحال خان صاحب کو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرنا پڑے گا جس سے وہ بھی پاکستانی سیاست میں امر ہوجائیں ورنہ جذباتی تقریر تو میاں شہباز بھی کرتے ہیں مگر دیکھ لیں بھٹو کی صف میں جگہ نہ پاسکے۔ دوسروں کی بات چھوڑیں خود بلاول زرداری بھی اپنے نانا کی میراث پر قابض ہونے کے باوجود ان جیسے نہ بن سکے۔ اس پر خطرراہ پر چلنا بہت مشکل ہے یہاں دودھ پینے والے نہیں جان دینے والے مجنوں ہی قدم رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
میاں نوازشریف جنید صفدر کا پولو میچ دیکھنے پہنچ گئے
اسے کہتے ہیں آبیل مجھے مار۔ کیا میاں جی نہیں جانتے کہ وہ لندن میں بیماری کے ایام بسر کررہے ہیں۔ بیمار لوگ اس طرح میچ دیکھنے نہیں جاتے کیونکہ جب وہ پاکستان سے لندن گئے تھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے وہ زندگی کا میچ کھیل رہے ہیں مگر وہاں جاکر ان کی بازاروں میں مٹرگشت، کافی شاپس میں کافی پینے کی ویڈیو دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا کہ کیا یہ وہی مریض ہے جس کی شدید بیماری کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے وکیل اور میڈیا والے تھکتے نہیں تھے۔ کیا یہ لندن کی معطر فضائوں کا اثر ہے کہ وہ وہاں پہنچتے ہی بھلے چنگے ہوگئے ورنہ آج تک فارسی کے ایک شعر کے مطابق یہ تاثیر صرف کشمیر کی آب و ہوا کو حاصل ہے کہ وہاں اگر کوئی جلا بھنا پرندہ بھی آجائے تو اس کے بھی بال و پر نکل آتے ہیں مگر لگتا ہے اب لندن کے بارے میں بھی کوئی ایسا لازوال شعرلکھنا پڑے گا کہ وہاں پہنچ کر قریب المرگ بیمار بھی صحت یاب ہوجاتاہے۔ خبر کے مطابق میاں جی اپنے نواسے کا پولو میچ دیکھنے گئے تھے۔ جنید صفدر کیمبرج کی ٹیم کی طرف سے میچ کھیل رہے تھے۔ ان کے گھوڑے کو بہترین پونی ہونے کا اعزاز بھی ملا ہے۔ گرچہ یہ میچ مخالف ٹیم آکسفورڈ والوں نے جیتا۔ اب مسلم لیگ والے بھی ایک نئے میچ کیلئے تیار ہوجائیں جو پی ٹی آئی کے ترجمانوں کی طرف سے ان کے ساتھ پڑنے والا ہے جس میں میاں جی کی صحت کے ساتھ ان کے سیرسپاٹے بھی موضوع بحث بنیں گے اوران کو جواب تو دینا ہی پڑے گا۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں 917 جواء خانے پولیس کی کمائی کا بڑا ذریعہ سیاسی شخصیات سرپرستی کرتی ہیں
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کے پیچھے بااثر سیاسی شخصیات اور پولیس کا ہاتھ ہے۔ جرائم کی دنیا میں جو بھی ساجھا ماجھا ، گاما نظر آتا ہے اس کی پشت پناہی یہی مخدوم، ٹوانے، شاہ، میر ، ملک، خان، چودھری اور وڈیرے کرتے ہیں تاکہ ان کی بدولت علاقے میں ان کی دھاک جمی رہے۔ اسی طرح کسی بھی علاقے میں جرائم کے مراکز مکمل طور پر پولیس کی دسترس میں چلتے ہیں۔ پولیس وہاں ان کی محافظ بنی نظر آتی ہے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے اس کے صلے میں جو کچھ پولیس والوں کو ملتا ہے وہ عام آدمی کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ اس چشم کشا رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ لاہور میں 917 جوئے خانے چل رہے ہیں جہاں روزانہ کروڑوں کا جواء ہوتا ہے۔ اب پولیس نے خفیہ اداروں کی رپورٹ کے بعد ان کا قلع قمع کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ازخود مخولیہ لگتا ہے کیونکہ 917 جواء خانوں کے باوجود صرف 35 بڑے جواریوں کی گرفتاری کی فہرست تیار کی گئی ہے باقی شاید سب پولیس کی چھترچھایا میں بیٹھے ہوئے ہیں گڈبک میں شامل ہیں۔ اس لئے ان کے نام نہیں دیئے جارہے گویا لاوارث قسم کے 35 جواریوں کی قربانی دے کر باقی 892 جواریوں کی گردن بچائی جارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان تمام جوئے کے اڈوں کو مسمار کرکے ان کے مالکان اور سرپرستوں کو ان کے ملبے پر الٹا لٹکایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو جواء خانہ کھولنے کی جرأت نہ ہو۔ اس جوئے کی وجہ سے لاکھوں خاندان برباد ہوچکے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے والا چوہا 5 سالہ سروس کے بعد ریٹائر ہوگیا
کمبوڈیا میں یہ ذہین فطین چوہا باقاعدہ فوجی تربیت کے بعد اس کام کیلئے مامور ہوا تھا۔ اس سے قبل فوجی تاریخ میں کبوتروں، گھوڑوں، خچروں اور کتوں کا تذکرہ تو ملتا ہے۔ قدیم دور سے آج تک ان سے فوجی خدمات لی جاتی ہیں مگر یہ چوہا غالباً پہلا فوجی ہے جو بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے والی نہایت اہم خدمت سرانجام دینے کیلئے تعینات ہوا۔ اب اپنی سروس کے 5 سال مکمل کرنے کے بعد یہ ریٹائر ہوکر نہایت اطمینان کی زندگی بسر کرے گا۔ بس خدا اسے کسی خونخوار بلی کے جبڑوں اور الو کے پنجوں سے محفوظ رکھے۔ اگر اس نے کمبوڈیا سے باہر کسی یورپی ملک میں کوئی جائیداد وغیرہ بنائی ہے تو ہوسکتا ہے اب یہ وہاں جاکر اپنے پرتعیش فارم ہائوس میں آرام دہ زندگی بسر کرے ۔ ویسے یہ کوئی بری بات نہیں۔ ایک تھکا دینے والی سخت کوش ملازمت کے بعد آرام سے رہنا سب کا حق ہے ۔ اس چوہے کی ریٹائرمنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اگر چاہے تو کسی عام معمولی سی چیز سے بھی بڑے سے بڑے کام لے سکتا ہے۔ بارودی سرنگ کا سراغ لگاتے ہوئے دنیا بھر میں سینکڑوں لوگ مارے جاتے ہیں۔ اس لئے بارودی سرنگوں کے استعمال پر پابندی ہے۔ اس لحاظ سے یہ چوہا سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں بچانے کا موجب بنا ہے اب اسے کوئی اعلیٰ کارکردگی کا ایوارڈ بھی دیاجائے تو بہتر ہوگا۔
٭٭٭٭٭